رزق تلاش کرنے جنگل میں جاتے ہیں، وہ بھی اپنی غذا تلاش کرنے کھیتوں اور جنگلوں میں گھومتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ آپ پلاؤ زردہ کھاتے ہیں، وہ گھاس دانہ کھاتے ہیں۔ آپ گوشت پکا کر کھاتے ہیں، وہ اس مصیبت سے ۔َبری ہیں، کچا ہی کھالیتے ہیں۔ آپ اگر ان کے گھا س دانے سے نفرت کرتے ہیں تو وہ آپ کے زردہ پلاؤ سے نفر ت کرتے ہیں۔
طبعی علوم انسان کے لیے وجہ امتیاز نہیں ہیں: غرض کوئی طبعی فن ایسا نہیں ہے جن میں وہ آپ کی ہم سری کا دعویٰ نہ کرسکیں۔ آپ سیاست کے مدعی ہوں گے تو شہد کی مکھی اور بطخ سامنے آکر اس دعوائے خصوصیت کو باطل کردے گی۔
آپ کپڑا ۔ُبننے اور جال بنانے کے فن کا دعویٰ کریں گے تو مکڑی سامنے آکر بولے گی کہ یہ کام میں بھی کرسکتی ہوں۔ آپ فنِ طب کی مہارت کا دعویٰ کریں گے تو بندر اُچھل کر کہے گا کہ جڑی بوٹیوں کی خاصیتیں کچھ میں بھی جانتا ہوں اور میں زہر کا تریاق جانے ہوئے ہوں۔ آپ فنِ پرواز کے مدعی ہوں تو پر ندے سامنے آکر کہیں گے کہ ہم فنِ پرواز میں تم سے زیادہ ماہر ہیں۔ آپ انجینئری اور فنِ خانہ سازی کے مدعی ہوں گے تو ہر چرند پرند اور درندے آپ کے مقابلے میں آکر کہیں گے کہ یہ کام ہم سب جانتے ہیں۔ رہنے سہنے، لباس پہننے، علاج کرنے، مکان بنانے اور تنظیم وسیاست کاری کرنے میں شریک ہیں۔ تو ان فنون کی وجہ سے تو انسان ان جانوروں سے افضل نہیں ہوسکتا۔
انسان کا امتیاز: افضلیت کسی خصوصیت کی بنا پر ہوتی ہے جو اس میں ہو اور دوسروں میں نہ ہو۔ تو حقیقت یہ ہے کہ وہ علم جو صرف انسانوں میں ہے اور اس کے سوا اور کسی میں نہیں وہ علمِ شرائع اور علمِ احکامِ خداوندی ہے، جس سے اللہ کی معرفت ہوتی ہے، اور انسان اس علم کے ذریعے سعادت کے درجات طے کرتا ہے اور عنایتِ خدا وندی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہ علم کسی بھی غیر انسان میں نہیں پایا جاتا۔ نہ ملائکہ میں یہ علم موجود ہے، نہ جنا۔ّت اس علم سے آراستہ ہیں۔ نہ حیوانات واقف ہیں اور جمادات ونباتات تو کیا واقف ہوتے؟ یہ علم خصوصیت ہے انسان کی، علمِ شرائع ہی صرف انسان کی وہ خصوصیت ہے جس نے اُسے سب مخلوقات پر فوقیت و فضیلت دی۔