Deobandi Books

انسانیت کا امتیاز

64 - 74
لاوارث اُمت نہیں ہوسکتی۔ اس کی پشت پناہی اللہ و رسول کی طرف سے برابر جاری رہے گی۔ جیسا کہ رہتی آرہی ہے۔ حضورﷺ  نے فرمایا:
مَثَلُ أُمَّتِيْ کَمَثَلِ الْمَطَرِ لَا یُدْرٰی أَوَّلُہُ خَیْرٌ أَمْ آخِرُہُ۔
میری اُمت کی مثال بارش جیسی ہے۔ یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ اس کا اوّل زیادہ بہتر ہے یا اس کا اخیر۔ 
پس انبیا  ؑ  کا ترکہ اس وارث اُمتی کو ملتا رہے گا جو اپنا روحانی نسب حضورﷺ  سے جوڑے رکھے گا اور وہ ترکہ بھی علم ہے۔ کیوں کہ انبیا مال و دولت وراثت میں نہیں چھوڑتے، بلکہ علم و معرفت چھوڑتے ہیں۔ اسی علم و معرفت سے آدمی، آدمی بنتا ہے اور انسانیت اسی علم پر موقوف ہے۔ اگر دنیا میں انبیا  ؑ  تشریف نہ لاتے تو انسان ڈھوروں، ڈنگروں کا ایک ۔ّگلہ ہوتا جو بہ قول ملائکہ اس دنیا میں آنے کے بعد بجز سفاکی اور مفسدہ پردازی کے کوئی دوسرا کام نہ جانتا۔ پس مادّی تعلیم اور سائنس وغیرہ عمدہ عمدہ سامان تو پیدا کرسکتی ہے مگر عمدہ انسان پیدا نہیں کرسکتی۔ 
مادّہ و سائنس کی بے مائیگی: عمدہ انسان صرف انبیا کی لائی ہوئی تعلیم ہی سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ سائنس سے باہر تو چاندنا ہوتا ہے مگر اندر اندھیرا ہوجاتا ہے، نہ تقویٰ ظاہر ہوتاہے نہ تقویٰ باطن۔ ظاہراً مادّیات کی ترقی ہو رہی ہے مگر اندر کے جوہر تباہ ہو رہے ہیں۔ انسان نے نئی ایجادات میں اپنی تمام طاقتوں کو گم کردیا اور اس کی محتاجگی بڑھ گئی۔ اگر وہ اُڑنا چاہے تو 
لوہے، لکڑی، پیتل کا محتاج ہے۔ اگر بعید مسافت پرخبر دینا چاہے تو لاسلکی اور وائرلیس کا محتاج۔ اگر کسی دور دراز مقام پر پہنچنا چاہے تو ریل، موٹر کا محتاج۔ یعنی خود اپنے نفس کی اندرونی طاقت سے یہ کام نہیں کرسکتا، بلکہ ان آلات و وسائل کا دست نگر ہے۔ مرد وہ تھے جنھوں نے اپنے اندر وہ طاقت پیدا کی کہ ہزارہا میل کی مسافت پر بلالاسلکی کے آواز پہنچائیں۔ جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے بیت اللہ کے بن جانے کے بعد حج کرنے کی ہدایت کی آواز لگائی تو وہ سارے عالم میں گونجی۔ فاروقِ اعظمؓ  نے مسجدِ نبوی سے ساریہؓ  کو آواز دی تو وہ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
3 انسانیت کا امتیاز 6 1
4 مقدمہ و تمہید 6 1
5 کائنات کا مقصدِ تخلیق 8 1
6 ذی شعور مخلوقات 8 1
7 اسلام میں حیوانات کے حقوق کی حفاظت 9 1
8 جنات کے حقوق 11 1
9 جنات میں مختلف مذاہب 12 1
10 فقہا کی بحث 14 1
11 جنات میں آں حضرتﷺ کی تبلیغ 14 1
12 حقوقِ ملائکہ 15 1
13 انسان کے حقوق 16 1
14 حیوانات کا مقصدِ تخلیق 17 1
15 حیوانات کو عقل وخطاب سے محروم رکھنے کی حکمت 18 1
16 ملائکہ سے نوعیتِ خطاب 19 1
17 جنات سے نوعیتِ خطاب 20 1
18 جنات میں نبوّت نہ رکھنے کی وجہ 21 1
19 انسان کو مستقلاً خطاب 21 1
21 اور کسی بشر کی حالتِ موجودہ میں یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر تین طریق سے 21 1
22 علم اور وحیٔ الٰہی کے لیے انسان کا انتخاب 22 1
23 انسان کا ممتاز علم 23 1
24 ایک چشم دید مثال 25 1
25 فنِ سیاست بھی حیوانات میں پایا جاتا ہے 26 1
26 بطخوں میں سیاست وتنظیم 28 1
27 مکڑی کی صنعت کاری 29 1
28 طبعی علوم انسان کے لیے وجہ امتیاز نہیں ہیں 31 1
29 انسان کا امتیاز 31 1
30 علمِ شریعت کی حقیقت 32 1
31 دیگر مخلوقات پر انسان کی برتری 32 1
32 طبعی تقاضوں کی مخالفت کمال ہے 34 1
33 حجۃ الاسلام سیّدنا الامام حضرت نانوتوی ؒ کا بصیرت افروز واقعہ 34 1
34 حضرت نانوتوی ؒ کا عروجِ روحانی 37 1
35 انسان کی عبادت فرشتوں کی عبادت سے افضل ہے 39 1
36 انسان کی عبادت میں مزاحمتِ نفس ہے 40 1
37 انسان کی کائنات سے بازی لے جانے کا سبب 41 1
38 علمی ترقی صرف انسانی خاصہ ہے 42 1
39 آں حضرتﷺ پر علم اور خلافت کی تکمیل 43 1
40 مادّی ترقی کی اصل حقیقت تصادم و ٹکراؤ کا نتیجہ ہے 44 1
41 علم وجہل اور حق و باطل کے تصادم کی حکمت 46 1
42 قوموں کے مقابلوں میں درسِ عبرت 46 1
43 عقل کو ربانی علوم کا تابع ہونا چاہیے 50 1
44 اسلام کے دینِ فطرت ہونے کے معنی 51 1
45 خلافتِ انسانی کے بارے میں ملائکہ کا سوال 56 1
47 بارگاہِ الٰہی سے قولی و عملی جواب 57 1
48 انسانی اعمال پر فرشتوں کی گواہی کی حکمت 58 1
49 تکمیلِ خلافت کا مقام 59 1
50 مجددین علمائے ربانی انبیا کے نائب ہیں 62 1
51 دین کی حفاظت کا سامان 63 1
52 مادّہ و سائنس کی بے مائیگی 64 1
53 علمِ الٰہی کی مثال 65 1
54 مدارسِ دینیہ انسانیت کی فیکٹریاں ہیں 67 1
55 مدارسِ دینیہ سیرت سنوارنے کے لیے ہیں 69 1
56 خاتمہ 70 1
Flag Counter