لاوارث اُمت نہیں ہوسکتی۔ اس کی پشت پناہی اللہ و رسول کی طرف سے برابر جاری رہے گی۔ جیسا کہ رہتی آرہی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:
مَثَلُ أُمَّتِيْ کَمَثَلِ الْمَطَرِ لَا یُدْرٰی أَوَّلُہُ خَیْرٌ أَمْ آخِرُہُ۔
میری اُمت کی مثال بارش جیسی ہے۔ یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ اس کا اوّل زیادہ بہتر ہے یا اس کا اخیر۔
پس انبیا ؑ کا ترکہ اس وارث اُمتی کو ملتا رہے گا جو اپنا روحانی نسب حضورﷺ سے جوڑے رکھے گا اور وہ ترکہ بھی علم ہے۔ کیوں کہ انبیا مال و دولت وراثت میں نہیں چھوڑتے، بلکہ علم و معرفت چھوڑتے ہیں۔ اسی علم و معرفت سے آدمی، آدمی بنتا ہے اور انسانیت اسی علم پر موقوف ہے۔ اگر دنیا میں انبیا ؑ تشریف نہ لاتے تو انسان ڈھوروں، ڈنگروں کا ایک ۔ّگلہ ہوتا جو بہ قول ملائکہ اس دنیا میں آنے کے بعد بجز سفاکی اور مفسدہ پردازی کے کوئی دوسرا کام نہ جانتا۔ پس مادّی تعلیم اور سائنس وغیرہ عمدہ عمدہ سامان تو پیدا کرسکتی ہے مگر عمدہ انسان پیدا نہیں کرسکتی۔
مادّہ و سائنس کی بے مائیگی: عمدہ انسان صرف انبیا کی لائی ہوئی تعلیم ہی سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ سائنس سے باہر تو چاندنا ہوتا ہے مگر اندر اندھیرا ہوجاتا ہے، نہ تقویٰ ظاہر ہوتاہے نہ تقویٰ باطن۔ ظاہراً مادّیات کی ترقی ہو رہی ہے مگر اندر کے جوہر تباہ ہو رہے ہیں۔ انسان نے نئی ایجادات میں اپنی تمام طاقتوں کو گم کردیا اور اس کی محتاجگی بڑھ گئی۔ اگر وہ اُڑنا چاہے تو
لوہے، لکڑی، پیتل کا محتاج ہے۔ اگر بعید مسافت پرخبر دینا چاہے تو لاسلکی اور وائرلیس کا محتاج۔ اگر کسی دور دراز مقام پر پہنچنا چاہے تو ریل، موٹر کا محتاج۔ یعنی خود اپنے نفس کی اندرونی طاقت سے یہ کام نہیں کرسکتا، بلکہ ان آلات و وسائل کا دست نگر ہے۔ مرد وہ تھے جنھوں نے اپنے اندر وہ طاقت پیدا کی کہ ہزارہا میل کی مسافت پر بلالاسلکی کے آواز پہنچائیں۔ جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے بیت اللہ کے بن جانے کے بعد حج کرنے کی ہدایت کی آواز لگائی تو وہ سارے عالم میں گونجی۔ فاروقِ اعظمؓ نے مسجدِ نبوی سے ساریہؓ کو آواز دی تو وہ