اُمورِ کلیہ اور اپنی تمام بنی نوع کے مفادِ ۔ّکلی کو سمجھنے کے لیے کوئی اہلیت نہیں رکھتے۔ صرف اپنا شخصی محدود مفاد جانتے ہیں اور بس۔
حیوانات کا مقصدِ تخلیق: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اُنھیں فہم و عقل مل جاتا تو کیا حرج تھا؟ جواب یہ ہے کہ جن مقاصد کے لیے جانوروں کو پیدا کیا گیا ہے ان میں عقل و فہم کی ضرورت ہی نہیں، بلکہ عقل حارج ہوتی اور وہ مقاصد بھی پورے نہ ہوسکتے۔ ان سے متعلقہ مقاصد یہ ہیں جنھیں اس آیت میں جمع کردیا گیا ہے۔
قرآنِ حکیم نے فرمایا:
{وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَاج لَکُمْ فِیْہَا دِفْئٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْکُلُوْنَO وَلَکُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَO}1
اور اسی نے چوپایوں کو پیدا کیا کہ ان میں تمہارے لیے جاڑے کا بھی سامان ہے اور فائدے بہت ہیں اور اُن ہی سے کھاتے بھی ہو اور ان کی وجہ سے تمہاری رونق بھی ہے جب کہ شام کے وقت لاتے ہو اور جب کہ صبح کے وقت چھوڑ دیتے ہو۔
چناں چہ تم ان حیوانات کے اُون سے گرم کپڑے، ۔َپٹو۔ّ اور کمبل وغیرہ بناتے ہو۔ ان کھالوں میں تمہارے لیے کئی قسم کے منافع ہیں: اوڑھنے کے، بچھانے کے، زینت کے، خیمے بنا کر رہنے سہنے کے۔ {وَمِنْہَا تَاْکُلُوْنَO} اور ان میں سے تم کھاتے پیتے بھی ہو۔ یعنی ان کے گوشت سے فائدہ اُٹھانے کے۔ {وَلَکُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَO} اور تمہارے لیے ان جانوروں میں رونق و جمال کا سامان ہے کہ تم ان سے اپنے ٹھاٹھ باٹھ اور کروفر کی شانیں قائم کرتے ہو۔
سرکاری، قومی اور گھریلو تقریبات میں ان کا جلوس نکالتے ہو۔ گھوڑوں، ہاتھیوں، اونٹوں اور خچروں پر بیش قیمت زین، قیمتی ہودے اور زرّیں جھولے ۔َکس کر اپنا جاہ و حشم دکھلاتے ہو، جو ایک انتہائی زینت کا مظا ہرہ ہے۔