وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَّمْ تَکُوْنُوْا بٰلِغِیْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِط}1
اور وہ تمہارے بوجھ بھی ایسے شہر کو لے جاتے ہیں جہاں تم بدون جان کے محنت میں ڈالے ہوئے نہیں پہنچ سکتے تھے۔
حیوانات کو عقل وخطاب سے محروم رکھنے کی حکمت:ان منافع اور حیوانات کے ان ۔َخلقی مقاصد پر غور کرو تو ان کے لیے فہم و عقل کی مطلق ضرورت نہ تھی، بلکہ عقل ان میں حارج ہوتی، کیوں کہ اگر ان میں عقل ہوتی تو جب انسان ان پر سوار ہوتا، زین رکھتا یا بوجھ لادتا تو عقل مند جانور کہتا کہ ذرا ٹھہریئے، پہلے یہ ثابت کیجیے کہ آپ کو مجھ پر سواری کرنے یا بوجھ لادنے کا حق ہے بھی یا نہیں؟ اب آپ دلائل بیان کرتے، وہ اپنی عقل کے مطابق آپ سے بحث کرتا، تو سواری اور بوجھ تو رہ جاتا بحث چھڑ جاتی، اور اگر کہیں بحث میں جانور غالب آجاتا تو آپ کھڑے منہ تکتے رہ جاتے، بلکہ ممکن ہوجاتا کہ وہی آپ پر سواری کرتا۔
ظاہر ہے کہ یہ بڑی مشکل بات ہو تی۔ ہر حیوان سے کام لیتے وقت یہی مناظرہ بازی کا بازار گرم رہتا۔ نہ بیل کھیت جوت
سکتا، نہ گھوڑے سواری لے جاسکتے، نہ حلال جانوروں کا گوشت کھایا جاسکتا، نہ ان کی کھال، بال اور دانت وغیرہ سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا۔ سارے کام تجارت وغیرہ کے معطل ہوجاتے اور انسانوں کو ان حیوانوں کے ۔ُمناظروں سے کبھی بھی فرصت نہ ملتی، اور یہ ساری خرابی حیوانوں کو عقل وفہم ملنے سے ہوتی۔ پھر آپ کی تعلیم گاہوں میں بھی حیوانات علم حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے اور ایک ہی کلاس میں گھوڑے، گدھے، کتے۔ّ سب جمع رہتے، بلکہ جنگلوں سے شیر، بھیڑیئے، ریچھ، گیدڑ بھی جمع ہوتے تو آپ کو علم حاصل کرنا وبالِ جان بن جاتا۔ غرض علمی اور عملی کارخانے سب کے سب درہم برہم ہوجاتے، اس لیے شکر کیجیے کہ اللہ نے اُنھیں عقل و فہم نہ دیا جن سے آپ کے کام کاج چل رہے ہیں۔
اِس سے معلوم ہوا کہ جس طرح عقل نعمت ہے اسی طرح بے عقلی بھی نعمت ہے۔ حیوانات کی بے عقلی ہی سے انسان فائدہ اُٹھارہا ہے، حتیٰ کہ جو انسان بے عقل اور بے وقوف