الٰہی کی قائم کردی تو انسان ۔ُمز۔ّٰکی، مصفا۔ّ اور مجلّٰی ہوجائے گا۔
اسلام کے دینِ فطرت ہونے کے معنی:ورنہ ایک حیوان یا ایک شیطان یا ایک درندے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس کا حاصل یہ نکلا کہ شریعت انسان کے کسی ۔ِخلقی مادّے کو ضائع یا پامال کرنے کے لیے نہیں آئی، بلکہ ٹھکانے لگانے کے لیے آئی ہے، تاکہ ہر قوّت کو اس کا صحیح مصرف بتلا کر اس میں استعمال کرائے۔ یہی معنی ہیں اسلام کے دینِ فطرت ہونے کے کہ اُس نے ہر قوّت کو ٹھکانے لگادیا ہے۔ شہوت ہو یا غضب، درندگی ہو یا شیطنت، کسی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیا ہے، بلکہ ایک خاص پروگرام پر چلا دیا ہے۔ نیکی تو بجائے خود ہے، اس نے تو کسی بدی کو بھی بالکل نہیں مٹایا بلکہ اپنے اشاروں پر چلایا ہے۔ مثلاً: جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے۔ انسان کی جبلت میں جوش کے وقت مبالغہ آمیزی اور خلافِ واقعہ کلام کرجانا داخل ہے۔ شریعت نے اسے کلیتاً نہیں مٹایا، بلکہ فرمایا کہ اگر دو لڑتے ہوئے بھائیوں میں جھوٹ بول کر بھی صلح کرادو تو نہ صرف کہ یہ جائز ہے بلکہ اس پر اجر بھی ملے گا اور ایسا اجر جو نماز روزے پر ملتا ہے۔
دو بھائی باہم لڑرہے تھے، آپ نے ایک بھائی کے پاس جاکر کہہ دیا کہ تم کس کا مقابلہ کررہے ہو، وہ تو تمہاری جدائی سے بے حد۔ّ غمگین اور سوگوار ہے اور رات تو وہ آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور روتا تھا کہ ہائے! میرا بھائی مجھ سے جدا ہوگیا۔ اُدھر دوسرے بھائی کے پاس گئے اور اس سے بھی ایسی ہی باتیں کہیں جس سے دونوں کے دل نرم ہوگئے اور مصالحت کو آمادہ ہوئے اور صبح کو دونوں نے معانقہ کرکے باہم صلح و صفائی کرلی، تو اِس جھوٹ پر ثواب اس سچ کی نسبت یقینا ملے گا جس سے فتنے کا بیج بودیا جائے اور دو ملے ہوئے بھائیوں کو لڑادیا ہو۔ اس سے واضح ہے کہ جھوٹ جیسی چیز کو بھی شریعت نے مٹایا نہیں، بلکہ محفوظ رکھ کر اپنے اشاروں پر چلایا ہے۔ گویا معصیت بھی عبادت بن جاتی ہے اگر شریعت کے اشاروں سے ہو۔ اور اگر حق کو شریعت کے خلاف استعمال کیا جائے تو وہ معصیت بن جاتا ہے۔ غیبت سچ بولنے کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی واقعی عیب کو اس کے پسِ پشت بیان کرنے کا نام غیبت ہے۔ شریعت نے اس سچ کی ممانعت فرمائی اور اسے حرام رکھا۔ حالاں کہ غیبت سچی بات کو کہتے