ہیں وہ عقل مندوں کے محکوم ہیں، جس سے لیڈروں کی حکمرانی چل رہی ہے، بے وقوف نہ ہوتے تو لیڈروں کو غذا نہ ملتی۔اگر بے فہم نہ ہوتے تو لیڈری کی دکان نہ چل سکتی۔ پس کہیں عقل نعمت ہے تو کہیں بے عقلی نعمت ہے۔ اس لیے جانوروں میں مادّۂ عقل نہ ہونا ہی نعمت ہے، جس سے ان سے مختلف قسم کے کام بلا بحث و مجادلہ نکال لیے جاتے ہیں، ورنہ اگر ان میں عقل ہوتی تو یہ تمام منافع جو انسان ان سے لیتا ہے پامال ہوجاتے۔ حاصل یہ نکلا کہ جانوروں کی پیدایش سے جو مقاصد متعلق ہیں ان سے عقل کی ضرورت نہ تھی۔اس لیے ان کے فرائض کی وجہ سے اُن کو بے سمجھ رکھا گیا، تا کہ وہ انسان کی اطاعت سے منہ نہ موڑیں اور جب عقل و فہم ان کو نہیں دیا گیا تو ان سے خطاب کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی کہ ان کے لیے کوئی شرعی قانون اُتارا جاتااور وہ مخا طب اور مکلف بنائے جاتے۔ پس ان کے لیے نہ اَمر ہے، نہ نہی، نہ شریعت آئی، نہ کوئی تشریحی قانون۔ صرف لاٹھی اور ڈنڈا ہے، جس سے وہ کام پر لگے رہتے ہیں اور روز و شب مشغول و منہمک ہیں۔
ملائکہ سے نوعیتِ خطاب: ملائکہ کو خطاب تو کیا مگر خطابِ تکلیفی نہیں کیا کہ فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، بلکہ خطابِ تشریفی کیا جو اعزازی و تکریمی ہے، جیسے بادشاہ کسی مقر۔ّب سے باتیں کرے تو اس سے اس کی عزت بڑھانی اور مرتبہ بلند کرنا مقصود ہوتا ہے نہ کہ پابند بنانا۔ پس ملائکہ سے اللہ تعالیٰ نے خطاب کیا، کلام بھی فرمایا، گفتگو بھی کی، مگر اس پر کوئی شریعت نہیں اُتاری، کیوں کہ احکام دو ہی قسم کے ہوتے ہیں یا کرنے کے یا بچنے کے۔ کرنے کے کام خیر کے ہوتے ہیں جن سے خیر کا حصول مقصود ہوتا ہے اور بچنے کے کام شر۔ّ کے ہوتے ہیں جس سے شر۔ّ کا دفعیہ مقصود ہوتا ہے، جیسے: بد کاری، دغا بازی، رشوت ستانی، زنا کا ری، شراب خوری، چوری، سر زوری، بغاوت، تمر۔ّد اور سرکشی وغیرہ۔
ظا ہر ہے کہ ملائکہ میں شر۔ّ اور ۔ُبرائی کا مادّہ ہی نہیں رکھا گیا تو اُنھیں بچنے کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہ تھی، وہ بدی کر نہیں سکتے تو ان میں بدی سے بچنے کا حکم دینا عاجز کو اَمر کرناتھا، جو سراسر خلافِ حکمت ہے اور حق تعالیٰ حلیمِ مطلق ہے وہ خلافِ حکمت بات سے ۔َبری اور منز۔ّہ ہے،