علمِ شریعت کی حقیقت: جس کی یہ وجہ ہے کہ یہ علم بغیر پیغمبری کے نہیں آسکتا، کیوں کہ یہ علم اللہ کی مرضیات و نامرضیات کے جاننے کا علم ہے اور کسی کی مرضی بلا اس کے بتلائے ہرگز معلوم نہیں ہوسکتی۔ اور اللہ ہرکس و ناکس کو اپنے اندر کی بات نہیں بتلاتا۔ سو اس کے لیے اس نے نوعِ انسانی کو مخصوص فرمایا۔ اور اس میں بھی برگزیدہ تر طبقہ انبیا ؑ کا تھا، تو اس نے اُنھیں اپنی مرضیات و نامرضیات سے آگاہ کیا اور بتلایا کہ میں فلاں چیز سے خوش ہوتا ہوں اُسے کرو، اور فلاں چیز سے ناخوش ہوتا ہوں اُسے نہ کرو، یعنی اَمر و نہی کیا۔ پس اَمر و نہی کے قانون کو شریعت کہتے ہیں۔ اس شریعت کے علم کے لیے نبوّت رکھی اور یہ نبوّت نوعِ بشری کے ساتھ مخصوص رکھی اور نبوّت کے علم صرف انسان کو دیے۔
دیگر مخلوقات پر انسان کی برتری: یعنی چار ذی شعور مخلوق: ملائکہ، جنا۔ّت، حیوانات، انسان میں سے یہ علم صرف انسان کو بخشا۔ باقی تین اقسام: ملائکہ، جنا۔ّت اور حیوانات کو یہ علم نصیب نہیں ہوا۔ یا کسی قدر ہوا تو انسان کے طفیل اور اس کے واسطے سے ہوا۔ سو اس میں اصل انسان ہی رہا۔ جس میں کوئی مخلوق اس کی ہم سری تو بجائے خود ہے شرکت کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی۔ اس سے واضح ہوا کہ علومِ طبیعیہ، علومِ وہمیہ، علومِ خیالیہ، علومِ عقلیہ وغیرہ انسان کی خصوصیت نہیں، یہ اور انواع کو بھی میسر ہیں۔ کیوں کہ یہ تمام علوم اپنی اندرونی قویٰ سے اُبھرتے ہیں اور یہ قویٰ جان داروں میں کم وبیش سب میں رکھے گئے ہیں۔ عقل ہو یا خیال، وہم ہو یا طبیعت، ہر ایک چیز میں ہے۔ اس لیے ان کے ذریعے جو تصور بھی جان دار کو بندھے گا اس سے خود اس کے نفس کی مرضی نامرضی اور خواہش و طلب کھلے گی۔ خدا کی مرضی نامرضی اور خدا کی مطلوبہ کاموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ خدا کی پسند ناپسند اس کے اندر سے آئے ہوئے علم سے سمجھ میں آسکتی ہے اور وہی وحی کا علم ہے جو نبوّت و رسالت کے ذریعے آتا ہے اور یہ صرف انسان کو دیا گیا ہے۔ اس سے نمایاں ہوگیا کہ انسان کی خصوصیت علومِ طبیعیہ، علومِ وہمیہ، علومِ خیالیہ، علومِ شیطانیہ نہیں، بلکہ علومِ الٰہیہ ہیں۔ علومِ نبوّت اور علومِ رسالت ہیں۔ جو انسان کے سوا کسی کو میسر نہیں۔ اس لیے انسان اگر ساری مخلوقات پر برتری اور فضیلت کا دعویٰ کرسکتا ہے تو