اُنھیں اُن کے مکان سے اُجاڑ دیتے ہیں، جس کا ہمیں حق نہیں۔
حدیث میں ہے کہ جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منہ سے ایک خاص قسم کی بد بو پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے فرشتہ وہاں سے دور چلا جا تا ہے اور گویا جھوٹ کی گندگی پھیلا کر ان سے ان کا مکان چھین لیتے ہیں، تو آپ کو کیا حق ہے کہ جب وہ اپنی ڈیوٹی پر ہوں اور اپنی جگہ پر متمکن ہوں تو آپ اُن کو بھگادیں اور اُن کی جگہ چھین لیں۔ البتہ جن ناپاک افراد کو پاک مکانوں میں آنے کا حق نہیں ہے اُنھیں نکالا جائے تو بات انصاف کی ہوگی، جیسے حدیث میں ہے کہ جب اذان ہو تی ہے تو شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے تو اُسے بھگا ہی دینا چاہیے۔
بہر حال اسی طرح ملائکہ کی غذا ذکر اللہ ہے تو اس ذکر سے روکنے کی حرکت کرنا ان کی غذا چھین لینا ہے، جیسے پہلے آچکا ہے کہ گندگی پھیلانا یا غفلت کی باتیں کرنا جس سے اُنھیں تشویش اور اذیت ہو، جائز نہ ہوگا۔ بہر حال ملائکہ کے حقوق بھی جنا۔ّت اور حیوانات کی طرح ہیں، جن کا تلف کرنا جائز نہیں۔
انسان کے حقوق: چو تھی باشعور مخلوق انسان ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھی زمین و آسمان میں حقوق دیے ہیں۔ کھانے کا حق، لباس کا حق، مکان کا حق، آزادی کا حق، اسے بھی حق تعالیٰ نے اس زمین پر آبادکیا ہے۔ پس ان چاروں مخلوقات حیوان، جن۔ّ، فرشتہ اور انسان کا مکان ہے جس پر وہ آباد ہیں۔ ان چاروں مخلوقات سے حق تعالیٰ کا معاملہ الگ الگ ہے۔ حیوان سے جو معاملہ ہے وہ جنا۔ّت سے نہیں، جنا۔ّت کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ ملائکہ سے نہیں، جن۔ّ و ملک سے جو معاملہ ہے وہ انسان سے نہیں، مثلاً: جانوروں سے یہ معاملہ ہے کہ اُنھیں قابلِ خطاب نہیں سمجھا گیا اور کوئی اَمر و نہی اُنھیں نہیں دیا۔ کوئی قانون ان کے لیے خطابی رنگ کا نہیں اُتارا گیا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو، کیوں کہ ان میں فہمِ خطاب کا مادّہ ہی نہیں، نہ عقل ہے، نہ فہم، اور ہے تو بہت ہی ادنیٰ جومثل نہ ہونے کے ہے اور وہ بھی صرف اپنے مقاصد کے سمجھنے کے لیے ہے کہ وہ اپنی غذا، رہنے کی جگہ اور دیگر ضروریات کو سمجھ سکیں اور مہیا کریں۔ مگر وہ