کھانے میں مناظرہ ہوا تو کیا ہوگا۔ کیوں کہ مناظرہ علم کے دائرے کی چیز ہے اور اس میں مناظرہ ہوا تو انسان پیش کیا جائے گا جو ذی علم ہے۔ اور اس کے بعد فرمایا کہ ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر نہ کھانے میں مناظرہ ہوا تو ہم کہیں گے کہ کھانا کھانے کے بعد ہمیں بھی اور پنڈت جی کو بھی ایک مقفل کو ٹھڑی میں بند کردیا جائے اور چھ مہینے کے بعد کھولا جائے جو تروتازہ نکلے، سمجھئے وہی حق پر ہوگا۔
حضرت نانوتوی ؒ کا عروجِ روحانی: اس سلسلے میں میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ حضرت نانوتوی ؒ نے وفات سے چند ماہ پیشتر فرمایا کہ اب مجھے بقائے حیات کے لیے بحمداللہ کھانے پینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اتباعِ سنت کے لیے کھاتا پیتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ذکر اللہ رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے تو وہی ذریعۂ حیات بن جاتا ہے، جیسا کہ انبیا کی شان ہے کہ وہ اظہارِ عبد یت اور اُمت کے لیے نمونۂ عمل چھوڑنے کے لیے کھاتے پیتے ہیں اور وہ بھی انتہائی قلیل مقدار میں اور وہ بھی بے حد۔ّ سادہ۔ جیسے ۔َجو وغیرہ اور وہ بھی بے شمار فاقوں کے ساتھ۔ اس سے واضح ہوا کہ طبعی تقاضوں کی مخالفت اور ان کے ترک کا نام کمال ہے جو جواں مردی ہے۔ طبعی تقاضے پورے کرلینے کا نام کمال نہیں۔ یہ کمال تو ہر جانور میں بھی ہے۔
ایسے ہی فنونِ طبیعیہ میں بڑھ جانے اور ترقی کر جانے کا نام علم اور کمال نہیں کہ یہ طبعی علم بقدرِ بساط حیوانات میں بھی ہیں۔ علمی کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے باتیں کرکے علم حاصل کیا جائے جو طبیعت کے تقاضوں سے بالاتر ہے وہ علمِ وحی ہے، جو صرف پیغمبروں کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتا ہے، نہ کہ نفس میں خیالات پکا کر اُنھیں خوب صورت طریقوں سے نمایاں کردینے سے ملتا ہے وہ صورتِ علم کہلائے گا، حقیقی علم نہیں۔ اور جب یہ علمِ الٰہی ہی انسانی خصوصیت ہے تو انسانیت کے معنی ہی علمِ الٰہی کے حامل ہونے کے نکلے۔ اس لیے انسان نام جیسے کپڑے پہننے، گھر بنا کر رہنے اور کھانا کھانے کے نہیں۔ ایسے ہی دو کان، دو آنکھ، ایک ناک اور مخصوص صورت زیبا کے نہیں بلکہ سیرت زیبا کے ہیں، جو علمِ لدنی اور علمِ الٰہی سے بنتی