اختیار کریں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر گھر میں بھی جنا۔ّت بسے ہوئے ہیں۔ چوں کہ وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور ہم اپنے کام میں، اس لیے ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کوئی جن ہمارے گھر میں آباد ہے۔ البتہ جو بدطینیت اور شر۔ّی، فسادی ہوتا ہے اور ہمیں ستاتا ہے تو ہم کہنے لگتے ہیں کہ فلاں گھر میں آسیب کا اثر ہے اور پھر عاملوں کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ وہ عملیات سے اس جن کو بند کریں یا جلا ڈالیں۔
بہر حال جب جنا۔ّت بدی پر آجائیں تو پھر ان کا مقابلہ، بلکہ ان سے مقاتلہ کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
جنات میں مختلف مذاہب: ورنہ جہاں تک نیک اور مؤمن جنا۔ّت کا تعلق ہے ہمیں کوئی حق نہیں کہ اپنے گھروں سے اُنھیں نکالنے کی فکر میں رہیں، بلکہ ان کی طاقت اور نیکی سے خود ہمیں بھی فائدہ پہنچے گا۔ رہی بدی اور ایذا رسانی، سو وہ انسان کی بھی گوارا نہیں کی گئی، چہ جائے کہ جنا۔ّت کی کی جاتی۔
بہر حال یہ واقعہ ہے کہ جنا۔ّت میں ہر قسم کے افراد ہیں، نیک ہیں اور بد بھی ہیں، مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی، مشرک بھی ہیں اور یہودی و نصرانی بھی۔ چناں چہ قرآنِ کریم نے اس طرف کھلا اشارہ فرمایا ہے۔ حضورﷺ کی بعثت سے قبل جنا۔ّت آسمانوں کے دروازوں تک آجاسکتے تھے اور ملائکہ کی گفتگوؤں سے وحیٔ خداوندی کے کچھ الفاظ اُچک لاتے تھے جس میںاپنی طرف سے جھوٹ ملا کر اپنے معتقدوں کو سناتے اور پھر غیب دانی کے دعوے کرکے مخلوق کو اپنے دام میں پھانستے۔ حضورﷺ کی بعثت کے وقت ان کا آسمانوں کی طرف چڑھنا بند کردیا گیا تو اُنھیں پریشانی ہوئی کہ یہ کیا نیا حادثہ پیش آیا ہے جس نے ہم پر یہ بند ش عائد کردی، اور یہ کون سی نئی بات ظہور میں آئی ہے جس کی بد ولت ہم پر یہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔ چناں چہ کچھ جنا۔ّت اس وجہ کی تلاش میں نکلے اور مشرق و مغرب میں گھومے، کسی نے مغرب کی راہ لی اور کسی نے مشرق کی، کسی نے شمال کو چھانا اور کسی نے جنوب کو۔ ان میں سے ایک جماعت کا گزر مکہ میں ہوا تو دیکھا کہ حضورﷺ قرآن پڑھ رہے ہیں۔اس کا طرز و انداز