پیغمبر کو بشری اَصلیت سے ۔َملکیت کی طرف منتقل ہونا پڑتا ہے، اس لیے یہ صورت حضورﷺ پر نہایت بھاری اور شدید ہوتی تھی۔
دوسری صورت حق تعالیٰ کے براہِ راست کلام فرمانے کی ہے، جو پسِ پردہ رہ کر ہوتی تھی۔ یعنی نگاہیں حق تعالیٰ کو نہیں دیکھتی تھیں صرف کان کلامِ حق سنتے تھے۔
اور تیسری صورت فرشتہ کی انسانی صورت میں آکر پیغامِ خداوندی سنانے کی ہے، جس میں پیغمبر اپنی بشری اصلیت پر قائم رہتے تھے فرشتہ کو ۔َملکی چولا چھوڑ کر بشری چولا میں آنا پڑتا تھا۔ یہ تینوں صورتیں وحیٔ الٰہی کی تھیں۔
علم اور وحیٔ الٰہی کے لیے انسان کا انتخاب: حاصل یہ ہے کہ وحیٔ الٰہی اور نبوّت و شریعت کی دولت سے مخلوق میں بجز انسان کے اور کسی کا انتخاب عمل میں آیا۔ اور ظا ہر ہے کہ وحی علم کے اُتارنے ہی کو کہتے ہیں۔ وحی کے ذریعے علم ہی تو رسول کو دیا جاتا ہے، اس لیے دوسرے لفظوں میں علمِ الٰہی کی نعمت مستقلاً انسان ہی کو دی گئی ہے، جس کو اس کی بنیادی خصوصیت اور امتیازی نشان سمجھنا چاہیے، کیوں کہ خصوصیت کے معنی یہی ہیں کہ اس کے سوا کسی دوسرے میں نہ پائی جائے۔ اس لیے دوسرے لفظوں میں انسانیت کی خصوصیت علمِ وحی نکل آتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی خصوصیت اس میں سے نکال دی جائے تو وہ چیز باقی نہیں رہ سکتی۔
اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ اگر انسان کو علمِ وحی حاصل نہ ہو تو وہ انسان انسان نہ رہے گا کہ انسانیت کی خصوصیت اس میں نہ آئی یا نہ رہی۔ گو اس کی صورت انسانوں جیسی ہو۔ سو ظا ہر ہے کہ انسان نام انسانی صورت کا نہیں بلکہ انسانی جوہر کا ہے۔ اور انسانیت کا یہ جوہر یہ علمِ وحی ہے۔ اس لیے جو انسان علمِ وحی کا حامل نہیںوہ دلائلِ بالا کی رُو سے انسان نہیں صرف صورتِ انسان ہے، اور محض صورت کی جس میں حقیقت نہ ہو، کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اگر ہم گھوڑے کا مجسمہ بالکل اصلی گھوڑے جیسا بنالیں کہ دیکھنے میں اصل و نقل میں ذرّہ بھر فرق معلوم نہ ہو، تو کیا اُسے گھوڑا کہیں گے؟اور کیا وہ گھوڑے کی طرح سواری دے سکے گا؟ اور کیا اس کی قیمت بھی ہزار پا نچ سو روپیہ اُٹھ جائے گی؟ کبھی نہیں۔ کیوں کہ وہ گھوڑا نہیں گھوڑے کی محض تصویر ہے۔