Deobandi Books

انسانیت کا امتیاز

68 - 74
ضروری ہے جو بن کر بگڑتی نہ ہو اور وہ سیرت اور اخلاقِ فاضلہ اور علوم و کمالات ہیں۔ دنیا میں صورت فتنے کا ذریعہ بنتی ہے اور سیرت عزوجاہ کا۔ یوسف ؑ  کنعان کے کنوئیں میں ڈالے گئے۔ مصرکے بازار میں کھوٹے داموں بیچے گئے۔ زلیخا کے غلام بنے۔ پھر جیل خانے میں قید ہوئے۔ یہ سارے فتنے حسنِ صورت نے پیدا کیے، لیکن جب مصر کی سلطنت ملنے کا وقت آیا تو وہاں سیرت نے کام کیا۔ چناں چہ حضرت یوسف ؑ  نے مصر کی حکومت کا مطالبہ کرتے وقت یہ نہیں کہا کہ ’’اجعلني علی خزائن الأرض إني حسین جمیل‘‘ بلکہ ’’إني حفیظ علیم‘‘ کہا تھا۔ یعنی علمی اور عملی سیرت پیش کی تھی، جس سے حکومت ملی۔ صورت پیش نہیں کی تھی جس سے غلامی اور جیل کی قید و بند ملی تھی۔ پس حسنِ صورت فتنہ پیدا کرتاہے اور حسنِ سیرت عزّ و جاہ پیدا کرتا ہے۔ انبیا ؑ  اسی سیرت کے سنوارنے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ صورتوں کی آرایش کرانے کے لیے نہیں۔ 
إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَأمْوَالِکُمْ، وَلَکِنْ یَنْظُرُ إِلَی قُلُوْبِکُمْ وَأعْمَالِکُمْ۔
حق تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتے، بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمالوں کو دیکھتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا۔ اس کی نظر تمہارے دلوں اور اعمال پر ہے۔ وہاں یہ معیار نہیں کہ جو دولت مند اور خوب صورت ہو اُسے قبول فرمالے اور جو غریب بدصورت ہو اُسے ردّ کردے۔ یہی معیار انبیا  ؑ  کے ہاں بھی ہے کہ وہ آدمی کا ردّ و قبول حسنِ صورت سے نہیں بلکہ حسنِ سیرت سے کرتے ہیں۔ دنیا والوں کے ہاں ردّ و قبول کا معیار حسنِ صورت اور دولت ہے۔ 
حضرت بلال حبشیؓ  صورتاً سیاہ تھے، غلام حبشی تھے، مگر حضرت عمرؓ  ان کو ھُوَ سَیِّدُنَا وَمَوْلَانَا فرماتے اور صحابہؓ  کی گردنیں بلال ؓ  کے آگے جھک جاتیں۔ حسنِ صورت کی وجہ سے نہیں کہ وہ تھا ہی نہیں، بلکہ حسنِ سیرت کی وجہ سے کہ وہ بہ حدِ۔ّ کمال ان میں موجود تھی۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ  فرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَائِ ابْنِ أَبِيْ رَبَاحٍ۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
3 انسانیت کا امتیاز 6 1
4 مقدمہ و تمہید 6 1
5 کائنات کا مقصدِ تخلیق 8 1
6 ذی شعور مخلوقات 8 1
7 اسلام میں حیوانات کے حقوق کی حفاظت 9 1
8 جنات کے حقوق 11 1
9 جنات میں مختلف مذاہب 12 1
10 فقہا کی بحث 14 1
11 جنات میں آں حضرتﷺ کی تبلیغ 14 1
12 حقوقِ ملائکہ 15 1
13 انسان کے حقوق 16 1
14 حیوانات کا مقصدِ تخلیق 17 1
15 حیوانات کو عقل وخطاب سے محروم رکھنے کی حکمت 18 1
16 ملائکہ سے نوعیتِ خطاب 19 1
17 جنات سے نوعیتِ خطاب 20 1
18 جنات میں نبوّت نہ رکھنے کی وجہ 21 1
19 انسان کو مستقلاً خطاب 21 1
21 اور کسی بشر کی حالتِ موجودہ میں یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر تین طریق سے 21 1
22 علم اور وحیٔ الٰہی کے لیے انسان کا انتخاب 22 1
23 انسان کا ممتاز علم 23 1
24 ایک چشم دید مثال 25 1
25 فنِ سیاست بھی حیوانات میں پایا جاتا ہے 26 1
26 بطخوں میں سیاست وتنظیم 28 1
27 مکڑی کی صنعت کاری 29 1
28 طبعی علوم انسان کے لیے وجہ امتیاز نہیں ہیں 31 1
29 انسان کا امتیاز 31 1
30 علمِ شریعت کی حقیقت 32 1
31 دیگر مخلوقات پر انسان کی برتری 32 1
32 طبعی تقاضوں کی مخالفت کمال ہے 34 1
33 حجۃ الاسلام سیّدنا الامام حضرت نانوتوی ؒ کا بصیرت افروز واقعہ 34 1
34 حضرت نانوتوی ؒ کا عروجِ روحانی 37 1
35 انسان کی عبادت فرشتوں کی عبادت سے افضل ہے 39 1
36 انسان کی عبادت میں مزاحمتِ نفس ہے 40 1
37 انسان کی کائنات سے بازی لے جانے کا سبب 41 1
38 علمی ترقی صرف انسانی خاصہ ہے 42 1
39 آں حضرتﷺ پر علم اور خلافت کی تکمیل 43 1
40 مادّی ترقی کی اصل حقیقت تصادم و ٹکراؤ کا نتیجہ ہے 44 1
41 علم وجہل اور حق و باطل کے تصادم کی حکمت 46 1
42 قوموں کے مقابلوں میں درسِ عبرت 46 1
43 عقل کو ربانی علوم کا تابع ہونا چاہیے 50 1
44 اسلام کے دینِ فطرت ہونے کے معنی 51 1
45 خلافتِ انسانی کے بارے میں ملائکہ کا سوال 56 1
47 بارگاہِ الٰہی سے قولی و عملی جواب 57 1
48 انسانی اعمال پر فرشتوں کی گواہی کی حکمت 58 1
49 تکمیلِ خلافت کا مقام 59 1
50 مجددین علمائے ربانی انبیا کے نائب ہیں 62 1
51 دین کی حفاظت کا سامان 63 1
52 مادّہ و سائنس کی بے مائیگی 64 1
53 علمِ الٰہی کی مثال 65 1
54 مدارسِ دینیہ انسانیت کی فیکٹریاں ہیں 67 1
55 مدارسِ دینیہ سیرت سنوارنے کے لیے ہیں 69 1
56 خاتمہ 70 1
Flag Counter