ضروری ہے جو بن کر بگڑتی نہ ہو اور وہ سیرت اور اخلاقِ فاضلہ اور علوم و کمالات ہیں۔ دنیا میں صورت فتنے کا ذریعہ بنتی ہے اور سیرت عزوجاہ کا۔ یوسف ؑ کنعان کے کنوئیں میں ڈالے گئے۔ مصرکے بازار میں کھوٹے داموں بیچے گئے۔ زلیخا کے غلام بنے۔ پھر جیل خانے میں قید ہوئے۔ یہ سارے فتنے حسنِ صورت نے پیدا کیے، لیکن جب مصر کی سلطنت ملنے کا وقت آیا تو وہاں سیرت نے کام کیا۔ چناں چہ حضرت یوسف ؑ نے مصر کی حکومت کا مطالبہ کرتے وقت یہ نہیں کہا کہ ’’اجعلني علی خزائن الأرض إني حسین جمیل‘‘ بلکہ ’’إني حفیظ علیم‘‘ کہا تھا۔ یعنی علمی اور عملی سیرت پیش کی تھی، جس سے حکومت ملی۔ صورت پیش نہیں کی تھی جس سے غلامی اور جیل کی قید و بند ملی تھی۔ پس حسنِ صورت فتنہ پیدا کرتاہے اور حسنِ سیرت عزّ و جاہ پیدا کرتا ہے۔ انبیا ؑ اسی سیرت کے سنوارنے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ صورتوں کی آرایش کرانے کے لیے نہیں۔
إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَأمْوَالِکُمْ، وَلَکِنْ یَنْظُرُ إِلَی قُلُوْبِکُمْ وَأعْمَالِکُمْ۔
حق تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتے، بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمالوں کو دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا۔ اس کی نظر تمہارے دلوں اور اعمال پر ہے۔ وہاں یہ معیار نہیں کہ جو دولت مند اور خوب صورت ہو اُسے قبول فرمالے اور جو غریب بدصورت ہو اُسے ردّ کردے۔ یہی معیار انبیا ؑ کے ہاں بھی ہے کہ وہ آدمی کا ردّ و قبول حسنِ صورت سے نہیں بلکہ حسنِ سیرت سے کرتے ہیں۔ دنیا والوں کے ہاں ردّ و قبول کا معیار حسنِ صورت اور دولت ہے۔
حضرت بلال حبشیؓ صورتاً سیاہ تھے، غلام حبشی تھے، مگر حضرت عمرؓ ان کو ھُوَ سَیِّدُنَا وَمَوْلَانَا فرماتے اور صحابہؓ کی گردنیں بلال ؓ کے آگے جھک جاتیں۔ حسنِ صورت کی وجہ سے نہیں کہ وہ تھا ہی نہیں، بلکہ حسنِ سیرت کی وجہ سے کہ وہ بہ حدِ۔ّ کمال ان میں موجود تھی۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَائِ ابْنِ أَبِيْ رَبَاحٍ۔