الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ میَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْط}1
اگر یہ لوگ رسول کے اور جن میں ایسے اُمور کو سمجھتے ہیں اُن کے حوالے پر رکھتے تو اس کو وہ
حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں سے اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں۔
علمی لا ئن میں انسان کی بر تری ملائکہ پر ایک تو کمیّتِ علم کے لحاظ سے ہے کہ اسے تمام اَسما کی تعلیم ملی۔
{وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّہَا}2
جو ملائکہ کو نہیں ملی اور دوسرے کیفیتِ علم کے لحاظ سے ہے کہ ملائکہ اپنی معلومات میں تفقّہ و اجتہاد سے کوئی اضافہ نہیں کرسکتے اور انسان کرتا ہے۔ پس اللہ نے انسان کو سب سے زیادہ علم بھی دیا اور اس میں زیادہ علم کی صلاحیتیں بھی رکھ دیں۔
علمی ترقی صرف انسانی خاصہ ہے: پس علم اور ترقیٔ علم درحقیقت انسان ہی کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے جو دوسری مخلوقات میں نہیں۔ اور ظا ہر ہے کہ کمالِ علم شاہیت کی شان ہے، کیوں کہ بادشاہ کا کام مزدوری کرنا نہیں بلکہ اپنی ہی مملکت کا علم رکھنا ہے تاکہ احکام دے سکے۔ اس لیے جب انسان کو سب سے زیادہ علم دیا گیا تو قدرتی طور پر نیابت و خلافتِ خداوندی بھی اسی کا کام ہوسکتا تھا جو اسے مل گیا اور اس کائنات کا سارا انتظام اس کے سپرد کردیا گیا کہ وہ نائبِ الٰہی بن کر اس کی کائنات پر حکم چلائے۔ کائنات سے کام لے اور اس میں حسبِ منشا تصر۔ّفات کرے، اس لیے وہ حیوانات سے الگ کام لیتا ہے، جمادات سے الگ بے گار لیتا ہے۔ زمین سے آسمان تک اس کے تصر۔ّفات چلتے ہیں۔ وہ اس مادّی کائنات کے مادّوں میں علم کی طاقت سے جوڑ توڑ کرکے نئی نئی ایجادات کرتا ہے اور اس طرح اپنی علم کی وسعت دیتا رہتا ہے۔ سب سے پہلا علم یہ ہے کہ شئے کا نام معلوم ہو، کیوں کہ علم میں سے نئی نئی باتیں نکالنا اور پھر عمل و صنعت میں نئی نئی ایجادات کرنا، نہ فرشتوں سے بن پڑا، نہ جن و حیوان سے، تو حق تعالیٰ کی ازلی عنایت اسی پر متوجہ ہوئی اور اسی کو اُس نے اپنی توجہ و عنایت سے تدریجی طورپر علم سکھلایا۔