رہی خیر، تو وہ اُن کا طبعی تقاضا ہے، جسے وہ بہ تقاضائے طبیعت کرنے پر مجبور ہیں اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں مصروف رہتے ہیں، عبادت کرتے ہیں اور اپنی طبعِ پاک ہی سے منشائے خداوندی کو بھی پہچانتے ہیں، اس لیے ان کو شریعت کے پہنچوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ اُنھیں اَمرِ خیر کرنے کے لیے کسی قانون سے تنبیہ کی جاتی۔
پس جیسے ہمارے حق میں کھانا پینا، سونا جاگنا وغیرہ ایک طبعی بات ہے، خواہ کوئی شریعت آئے یا نہ آئے انسان اس پر مجبور ہے کہ کھائے پئے، اس لیے ان اُمورِ طبعیہ پر آمادہ کرنے کے لیے کسی شریعت کی ضرورت نہ تھی، اگر شریعت نہ بھی ہوتی تب بھی ہم پیاس کے وقت پانی پیتے اور بھوک کے وقت کھانا کھاتے، تو جیسے ہمارے حق میں کھا نا پینا طبعی بات ہے اسی طرح تمام اُمورِ خیر، عبادت، نیکی، پاک دامنی، صفائے باطن و ظاہر اور سلامتی، ملائکہ کے حق میں طبعی بات ہے شریعت آئے یا نہ آئے وہ اپنے تقاضائے طبع سے ہمیشہ نیکی ہی کریں گے۔ اس لیے اُمورِ خیر کے لیے بھی اُنھیں کسی شرعی تکلیف اور قانونی خطاب کی ضرورت نہ تھی۔
بہرحال ملائکہ کو نہ اَمرِ شرعی کی ضرورت ہے نہ نہیٔ شرعی کی، اس لیے ان سے خطابِ تکلیفی نہیں کیا گیا۔ صرف تشریفی اور تکریمی کیا گیا۔
جنات سے نوعیتِ خطاب: پس جا نوروں سے تو خطاب ہی نہیں کیا گیا۔ ملائکہ سے خطاب تو کیا گیا مگر تکلیفی خطاب نہیں کیا گیا۔ رہے جنا۔ّت تو ان سے خطاب تو کیا گیا مگر تکلیفی خطاب ہی کیا گیا۔ مگر خطاب مستقل نہیں کیا گیا، یعنی خود اُن پر براہِ راست کوئی شریعت نہیں اُتاری گئی اور نہ براہِ راست اُن کی نوع کو کوئی شرعی تکلیف دی گئی۔ بلکہ انسان کے واسطہ سے ان ہی کی شریعت کا مخاطب بنایا گیا اور ان کو دین میں انسانوں کے تابع رکھا گیا۔ چناں چہ ان میں جو یہودی ہیں وہ حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لائے، خود تورات جنا۔ّت پر نہیں اُتری۔ جو نصاریٰ ہیں وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے متبع ہیں، انجیل خود ان کی نوع پر نہیں اُتری اور جو مسلمان ہیں وہ جناب رسول اللہﷺ کے تابعِ فرمان بنائے گئے ہیں۔ خود قرآنِ پاک براہِ راست اُن پر نہیں اُتارا گیا۔ پس جو شریعت انسانوں کے لیے آئی ہے وہی ان کے لیے بھی آئی ہے، مگر بہ واسطۂ