ہے۔ تو اولوالاَمر کا انتخاب، پھر اس کے سامنے سمع و اطاعت، پھر قوم کی انتظامی تشکیل اور نظم کے تحت مکانات کی تقسیم، پھر بے راہ روی پر مجرم کا قتل، اگر سیاست نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
ضلع بجنور کے ایک قصبہ نجیب آباد میں شہد بہ کثرت ہوتا ہے اور وہاں پر شہد کی مکھیوں کو پالنے کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ وہاں کا ہم نے ایک محاورہ سنا کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو تین مکھیاں جہیز میں دیں۔ فلاح نے چار مکھیاں جہیز میں بیٹی کو دیں۔ ہمیں تعجب ہوا کہ جہیز میں پلنگ، پیڑھیاں، میز، ۔ُکرسیاں، زیور، کپڑا وغیرہ تو دنیا بھر میں دیا جاتا ہے۔ یہ مکھیاں جہیز میں دینے کے آخر کیا معنی ہیں؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ جب وہ لوگ شہد کی مکھیاں پالتے ہیں اور کسی خاص جگہ شہد کا چھتا۔ّ لگوانا چاہتے ہیں تو اس امیر مکھی کو یعنی یعسوب کو پکڑ کر اس جگہ بٹھلا دیتے ہیں تو ساری مکھیاں وہیں جمع ہوجاتی ہیں۔ چھتا۔ّ بناتی ہیں اور وہاں شہد تیار ہوجاتا ہے۔ اس ۔ُگر کو سامنے رکھ کر وہاں کے یہ شہد کے کاروباری دو چار امیر مکھیاں پکڑ کر اور ڈبیہ میں بند کرکے بیٹی کو جہیز میں دے دیتے ہیں، وہ لڑکیاں ترکیب جانتی ہیں اور مناسب مقام پر ان مکھیوں کو بٹھلا دیتی ہیں، تو وہیں شہد کے چھتے۔ّ لگ جاتے ہیں اور کئی کئی دھڑی شہد ہوتا ہے۔ تو چار مکھیاں جہیز میں دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چار دھڑی شہد جہیز میں دے دیا گیا۔ اس سے شہد کی مکھیوں کی اطاعت شعاری اور نظم پسندی معلوم ہوئی۔ جس کی نظیر انسان میں بھی نہیں ہے۔
سو اس نظم پسندی اور تنظیمِ ملت کی اعلیٰ ترین سیاست کے ہوتے ہوئے آپ کو خواہ مخواہ ہی دعویٰ ہوگیا ہے کہ انسان ہی صرف سیاست دان ہیں۔ یہ مکھیاں بھی دعویٰ کرسکتی ہیں کہ ہم بھی سیاست دان ہیں۔ تو اگر آپ بھی کسی امیر کے تحت رہ کر تقسیمِ عمل کرلیں کہ کوئی غذا مہیا کرے، کوئی تعلیم کا کام کرے، کوئی فوج میں بھر تی ہو کر ملک کی حفاظت کرے، تو ہر کام بلاشبہ عمدہ ہے۔ ضروری بھی ہے۔ مگرمحض انسان کی خصوصیت نہیں، مکھیاں بھی کرسکتی ہیں۔ اس لیے یہ تنظیم کوئی وجہ فضیلت نہیں کہ انسان اپنے کو حیوانات سے برتر سمجھے۔
بطخوں میں سیاست وتنظیم: بطخوں میں بھی سیاست پائی جاتی ہے۔ جب بطخیں سوتی ہیں تو اُن کا امیر اُن کی نگہبانی اور پاسبانی کرتا ہے۔ وہ ایک ٹانگ پر ساری رات جھیل میں کھڑا رہتا