آئے گا، لیکن غور کرو تو یہ عقل ان قوّتوں پر علم کے ہتھیاروں ہی سے غالب آسکتی ہے۔
بلا علم کی عقل محض عقلِ طبعی ہے جو بلاشبہ ان ہی طبعی قوّتوں کا ساتھ دے گی اور اُنھیں اپنا کام کرنے کے لیے نئے راستے بھی بتلائے گی، لیکن عارف و عالم عقل جسے علم نے چمکا دیا ہو ان قوّتوں کو اپنی راہ پر چلائے گی۔
عقل کو ربانی علوم کا تابع ہونا چاہیے:اورپھر ہر شعبۂ زندگی میں انسانی کمالات کا ظہور ہوگا۔ اس لیے انسان کی فضیلت ان تینوں باشعور مخلوقات پر عقلِ محض سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ علم سے ثابت ہوتی ہے اور علم بھی وہ جو طبعی بھی نہ ہو اور کورا عقلی بھی نہ ہو، بلکہ ر۔ّبانی علم ہو جو بذریعۂ وحی کے ذاتِ حق کی طرف سے آتا ہے اور دلوں کو روشن کرتا ہے۔ عقلوں کو ۔ِجلا دیتا ہے۔ ذہنوں کو رسا کرتا ہے۔ دماغوں کو صیقل کرتا ہے اور بالفاظِ دیگر آدمی کو آدمی بناتا ہے۔ ورنہ: ع
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اس لیے ہمارا فطری اور عقلی فرض ہوجاتا ہے کہ ہم اس شرعی اور الٰہی علم کو حاصل کریں جس سے ہماری روشنی وابستہ ہے اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر گوشے میں اسی علم سے ہدایت حاصل کریں۔ یعنی خلوت اور جلوت، انفراد اور اجتماع، دوستی اور دشمنی، حکومت اور غلامی، خوشی اور غمی، راحت اور مصیبت، موت و حیات ہر مرحلے پر اسی علم سے جس کا دوسرا نام شریعت ہے، راہ نمائی حاصل کریں اور اپنی عقل کو اس کے خادم کی حیثیت سے ساتھ رکھیں۔ یہی قوّتیں جو جہالت کے ساتھ عیاشی، فحاشی، بدکاری اور بے ایمانی پر لاتی تھی اب شریعت کے تابع ہو کر عفت، عصمت، پاکی، پاک دامنی اور نیکو کاری پر لے آئے گی۔ وہی قوّتِ شیطنت جو بہ حالتِ جہل مکاری، ڈپلومیسی، عیاری اور شرارتوں کی طرف لاتی تھی، اب تابعِ فرمانِ الٰہی ہوکر تدبیر، دانائی، دانش و بینش اور عاقبت شناسی کی طرف لے آئے گی اور بہ الفاظِ دیگر نفس پرستی سے نکال کر فطرتِ روحانی اور خدا ترسی کی طرف نکال لائے گی۔ اس لیے خلاصہ یہ ہوا کہ طبیعت پر تو حکومت عقل کی قائم کردی جائے اور عقل پر حکمرانی شریعت اور علمِ