دنیا میں نہ معلوم کتنی ہوتی ہیں اور ہر جگہ ملائکہ کا ان مجلسوں پر اُترنا اورپھرچڑھنا اور پھر گواہ بننا آخر کیا ضروری تھا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ ملائکہ کو عملی جواب دینے کے لیے ہے کہ جس بارے میں تم کہتے تھے کہ
{اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَج}1
کیا آپ پیدا کریں گے زمین میں ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے اور خون ریزیاں کریں گے۔
تم نے دیکھا کہ وہ کس طرح عملِ صالح اور ۔ِبر۔ّ و تقویٰ میں لگا ہوا ہے اور کس درجہ صالح بن کر دین کو پھیلانے اور اس پر جمے رہنے کی سعی کررہا ہے۔
انسانی اعمال پر فرشتوں کی گواہی کی حکمت:کیا یہ فساد ہے؟ کیا یہ خون ریزی ہے؟ پس ایک طرف تو علم کے میدان میں انسان کو فرشتوں سے فائق ثابت کرایا اور ایک طرف عبادت و طاعت میں اسے فرشتوں سے اونچا ثابت فرمایا اور خود فرشتوں ہی کو اس کی نیکی پر گواہ بنایا، تاکہ اس کی سفاکی اور فساد کا تخیل ان کے ذہن سے نکل جائے اور وہ بہ صدقِ دل اس کی خلافت کے معترف ہوجائیں۔ چناں چہ ہرغیرمعمولی عمل و عبادت کے مواقع پر ملائکہ کو اسی طرح گواہ بنایا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب حاجی احرام باندھ کر حج و زیارت کرتے اور طواف و سعی میں دوڑتے ہیں۔ منیٰ و عرفات میں ٹھہرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو خطاب فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آخر گھر بار چھوڑ کر، بیوی بچوں سے منہ موڑ کر، سر سے کفن باندھ کر اپنی لذ۔ّت و آرام کو مٹا کر یہاں کیوں آئے ہیں؟ یہ صرف میری خوش نودی اور رضا کے لیے آئے ہیں اور پروانوں کی طرح نثار ہو رہے ہیں۔ اے ملائکہ! تم گواہ رہو کہ میں نے ان کو بخش دیا۔ حقیقت میں یہ فرشتوں کو وہی عملی جواب ہے کہ وہ انسان جس کے متعلق تم نے {اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا} کہا تھا۔ دیکھو! کیا طاعت و عبادت اور ترکِ لذ۔ّات میں اپنے رب کی خاطر مصروف ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دن کے اعمال لکھنے والے ملائکہ الگ ہیں اور رات کے الگ۔ دن والے فرشتے عصر کی نماز کے وقت اُوپر چڑھتے ہیں اور اعمال