نیک طبیعت اور پاک نہاد انسانوں نے ہمیشہ ان جانوروں کے حقوق کی رعایت کی ہے، دار العلوم دیو بند کے محد۔ّث حضرت مولانا میاں اصغر حسین صاحب ؒ کھانا کھانے کے بعد روٹیوں کے چھوٹے ٹکڑے اور کنے۔ّ تو چھتو۔ّں پر ڈلوا دیتے تھے کہ یہ پرندوں کا حق ہے اور کھانے کے ذرّات اور بھورے چیو نٹیوں کے سوراخوں پر رکھوا دیتے تھے کہ یہ اس نہتے۔ّ اور ضعیف جانور کا حق ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی جانور کا دل دکھانا اور اُسے ستانا ہرگز جائز نہیں۔ ایک نیک شخص محض اس لیے جہنم میں جھونک دیا گیا کہ اس نے بلی کو کوٹھڑی میں بند کرکے بھوکا پیاسا مار دیا تھا۔ ایک فاحشہ عورت محض اس لیے جنت میں پہنچا دی گئی کہ اُس نے ایک تڑپتے ہوئے پیاسے کتے۔ّ کو پانی پلا کر اس کی جان بچالی تھی، جیسا کہ حدیثوں میں اس کا تفصیل سے واقعہ آتا ہے۔ شریعتِ اسلام نے جانوروں کے ذبیحہ میں اس کی رعایت کا حکم دیا ہے کہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح مت کرو کہ اس کا دل دکھے اور وہ اپنے بنی نوع کے ایک فرد کو ذبح ہوتے دیکھ کر وحشت سے خشک ہونے لگے۔
بہرحال حیوانات کے اس دنیا میں رہنے سہنے، کھانے پینے اور امن و آزادی کے حقوق ہیں، جن کی حفاظت کا حکم اور ان کے ضایع کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ ہاں کوئی جانور شر۔ّی اور موذی ہو تو اُسے بے شک بند کر دینے یا مار دینے کے حقوق دیے گئے ہیں۔ سو یہ جانور ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، شریر انسان کے لیے بھی حدود و قصاص، حبس و جیل، قید و بند اور قتل و غارت وغیرہ رکھا گیا ہے۔ چناں چہ موذی جانور مثل سانپ اور بچھو۔ّ کو حرم میں بھی پناہ نہیں دی گئی اور قتل الموذیٔ قبل الإیذاء کا معاملہ رکھا گیا ہے، مگر اس سے حیوانات کے حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جنات کے حقوق: اسی طرح جنا۔ّت بھی اس جہان کے باشندے ہیں جن کے حقوق ہیں۔ اُنھیں مکان، غذا اور امن کا حق دیا گیا ہے، جسے پامال کرنے کا کسی کو حق نہیں، جس طرح وہ ویرانوں میں رہتے ہیں ویسے ہی اُنھیں حق دیا گیا ہے کہ ہمارے گھروں میں بھی بود و باش