بادشاہ کو اطلاع دی۔ بادشاہ آیا اور حکم دیا کہ درمیان سے دیوار نکال دی جائے۔ جوں ہی دیوار بیچ سے ہٹی، چینیوں کی وہ تمام نقا۔ّشی اور گل کاری رومیوں کی دیوار پرنظر آنے لگی اور تمام بیل ۔ُبوٹے رومیوں کی دیوار میں منعکس ہوگئے جسے رومیوں نے صیقل کرکے آئینہ بنادیا تھا۔ بادشاہ سخت حیران ہوا کہ کس کے حق میں فیصلہ دے، کیوں کہ ایک ہی قسم کے نقش و نگار دونوں طرف نظر آرہے تھے۔ آخرکار اُس نے رومیوں کے حق میں فیصلہ دیا کہ ان کی صنا۔ّعی اعلیٰ ہے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنی صنا۔ّعی بھی دکھلائی اور ساتھ ہی چینیوں کی کاریگری بھی چھین لی۔
مولانا روم نے اس قصے کو نقل کرکے آخر میں بطور نصیحت کے فرمایا کہ اے عزیز! تو اپنے دل پر رومیوں کی صنا۔ّعی جاری کر، یعنی اپنے قلب کو ریاضت و مجاہدہ سے مانجھ کر اتنا صاف کرلے کہ تجھے گھر بیٹھے ہی دنیا کے سارے نقش و نگار اپنے دل میں نظر آنے لگیں ؎
ستم است اگر ہوست کشد بہ سیر سروِ چمن درآ
تو زغنچہ کم دمیدئہ در دل کشا بہ چمن درآ
یعنی تو اپنے دل کی کھڑکیوں کو کھول دے اور اس میں سے ہر قسم کا مادّی میل کچیل نکال کر پھینک اور اسے علمِ الٰہی کی روشنی سے منوّر کردے تو تجھے دنیا و آخرت کے حقائق و معارف گھر بیٹھے ہی نظر آنے لگیں گے۔
بینی اندرخود علوم انبیاء
بے کتاب و بے معبد اوستا
ایسے قلبِ صافی پر بے اُستاد و کتاب براہِ راست علومِ خداوندی کا فیضان ہوتا ہے اور وہ روشن سے روشن تر ہوتا جاتا ہے۔ مگر یہ شان مادّی علوم کی نہیں، صرف روحانی اور شرعی علوم کی ہے۔ جب کہ ان پرعمل کیا جائے۔ حدیث میں ہے: مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَہُ اللّٰہُ عِلْمَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ عمل کی برکت سے حق تعالیٰ قلب میں وہ علوم ڈالتا ہے جو پہلے سے اس میں نہ تھے۔ اس لیے انسان اگر انسانیت چاہتا ہے تو اوّلاً عالم بنے، پھر عامل بنے۔ تب آخر کار علمِ لد۔ّنی کا وارث بنتا ہے۔ پس ابتدائی علم علمِ دراست ہے اور انتہائی علم علمِ وارثت ہے۔ یہ کتابوں کے درس و مطالعے کا علم علمِ درایت ہے۔