چناں چہ علم کا بالکل ابتدائی مرتبہ شئے کا نام معلوم ہونا ہے۔ اگر نام ہی معلوم نہ ہو تو اُس کی طرف توجہ ہی محال ہے کہ مجہولِ مطلق کی طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ پس حق تعالیٰ نے اپنے سب سے پہلے شاگرد حضرت آدم ؑ کو اشیا کے نام سکھلائے جو علم کی ابتدائی منزل ہے۔ شئے کانام معلوم ہوجانے پر طبعاً آدمی کا جی چاہتاہے کہ میں اس کو دیکھ بھی لوں، جس کا نام سنتا آرہا ہوں۔ تو پھر حق تعالیٰ نے وہ ناموں والی کائنات دکھائی کہ جن اشیا کے نام معلوم ہیں وہ یہ ہیں۔ اور پھر زمین و آسمان اور جو کچھ اُن کے درمیان میں ہیں اُنھیں پیش کیا۔ پھر اُن کے خواص وآثار بتلائے، پھر ان کے نتائج و غایات پر مطلع فرمایا۔ پھر ان سے کام لینا سکھلایا۔ اور پھر ان سے نفع حاصل کرنے کے طریقے سکھلائے۔ غرض درجہ بہ درجہ عالمِ بشریت علمی ترقی کرتا رہا اور انبیا ؑ یکے بعد دیگرے معلم بن کر آتے رہے اور علم کے مراتب کی درجہ بہ درجہ انسانوں کو تعلیم دیتے رہے۔ یہاں تک کہ جب انسانی استعداد کامل علم کی مستعمل ہوگئی۔ اور قرن ہا قرن گزرنے اور علمی مشق کرنے کے بعد انسان ہمہ گیر علم کے لیے مستعد ہوگیا۔
آں حضرتﷺ پر علم اور خلافت کی تکمیل: تو آخری معلم حضرت خاتم الانبیاءﷺ کو بنا کر بھیجا جنھوں نے حقائقِ الٰہیہ کی تعلیم دی اور دین کو کامل کرتے ہوئے اس کے ہر ہر حکم کی ۔ّعلت اور مقصد پر مطلع فرمایا، جس سے انسان نے حقیقتِ علم کا سراغ پایا اور وہ قرآنِ حکیم کے جامع علم سے روشن ضمیر بنا۔ پس وہ خلافت جو آدم ؑ کے دور میں اپنی ابتدائی منزل میں تھی۔ نبی کریمﷺ کے دور میں وہ اپنے انتہائی مقام پر پہنچ گئی۔ کیوں کہ اس کا منبع علم تھا۔ علم ابتدا میں علم الاسماء کے ابتدائی دور میں تھا تو اس پر موقوف خلافت بھی ابتدائی دور میں رہی اور وہی علم جب ترقی کرکے حدِ۔ّ کمال پر پہنچ گیا کہ اس کے بعد کسی نبی ہی کے آنے کی گنجایش نہ رہی جو کوئی نیا علم اور نئی شریعت لے کر آئے، تو خلافت بھی حدِ۔ّ کمال پر پہنچ گئی۔ چناں چہ خلافتِ ظاہری تو حقائقِ کائنات کی تسخیر ہے، جس کے ذریعے عناصرِ اربعہ کے عجائبات نمایاں ہوں اور خلافتِ باطنی حقائقِ الٰہیہ کی تحصیل ہے، جس کے ذریعے روحانیات کے عجائبات نمایاں ہوتے ہیں۔ سو ظاہر ہے کہ دورۂ محمدی میں یہ دونوں ہی خلافتیں حدِ۔ّ کمال کو پہنچ گئیں۔ ایک سے ایک