محبت کرے۔ اُسی کے لیے عداوت باندھے۔ اُسی کے لیے دے اور اُسی کے لیے ہاتھ روکے۔ جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
مَنْ أَحَبَّ فِي اللّٰہِ وَأَبْغَضَ فِي اللّٰہِ وَأَعْطَی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِْیْمَانَ۔
جو اللہ ہی کے لیے محبت کرے، اُسی کے لیے عداوت کرے، اُسی کے لیے دے اور اُسی کے لیے ہاتھ روک لے، تو اس نے ایمانِ کامل کرلیا۔
اور ظاہر ہے کہ یہ افعال فرشتہ کر ہی نہیں سکتا کہ اس میں نہ شہوت ہے نہ شیطنت، نہ غفلت ہے نہ نخوت۔ اس لیے جو اطاعت انسان کرسکتا ہے وہ فرشتہ کر ہی نہیں سکتا کہ اس میں وہ مادّے ہی نہیں جن کی روک تھام سے عبادت کی بے شمار شکلیں بنتی ہیں۔ اس لیے فرشتے کو ان علوم کی وہ ضرورت بھی نہ تھی جو انسان کو تھی۔ کیوں کہ جتنی مادّی رکاوٹیں انسان کے پیچھے ہیں اتنے ہی دفاع و مدافعت کے طریقوں کا علم اس کے لیے ضروری تھا۔
انسان کا علم فرشتوں سے کامل ہے: اس سے واضح ہوا کہ انسان کا علم بھی فرشتوں کی نسبت کامل اور جامع ہے اور اس کی عبادت بھی ان کی نسبت کامل اور جامع ہے اور بوجہ مدافعت جتنی عبادت انسان کی مضبوط ہے، فرشتے کی نہیں ہوسکتی۔ اور ظاہر ہے کہ جب علم بھی اس کا کامل اور عبادت بھی اس کی مکمل تو ساری کائنات میں سے صرف یہ انسان ہی مستحق تھا کہ نائبِ خداوندی بنے۔ کیوں کہ کمالاتِ خدا وندی لامحدود ہونے کے باوجود وہی نوعوں میں اصولاً منحصر ہیں۔ کمالاتِ علم اور کمالاتِ عمل اور ان ہی دو میں یہ انسان ساری مخلوقات حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بڑھ کر نکلا تو خدا کا نائب بھی ان کمالات میں یہی ہوسکتا تھا۔ اور عمل چوں کہ علم کے تابع ہے اس لیے اصل بنیادِ خلافت علم ہی ٹھہرتاہے، جو انسان ہی میں حدِ۔ّ کمال تک پہنچا ہوا ہے۔ اس لیے اسی کو خلیفۂ الٰہی بنایا گیا۔
خلافتِ انسانی کے بارے میں ملائکہ کا سوال:اسی لیے جب فرشتوں نے عرض کیا کہ اگر زمین میں خلیفہ بنانا ہے تو ہمیں کیوں نہ خلیفہ بنادیا جائے کہ ہم سے زیادہ آپ کی تقدیس و تسبیح کرنے والا اورکون ہے؟ تو حق تعالیٰ نے اوّلاً حاکمانہ جواب دیا کہ اس معاملے کو ہم جانتے