ہوگا؟ حضورﷺ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا جو تم ایمان نہ لاؤ۔ پیغمبر تمہارے سامنے ہے، معجزات تم بہ چشمِ خود دیکھتے ہو۔ وحی تمہاری آنکھوں کے سامنے اُترتی ہے۔ تم بھی ایمان نہ لاؤ گے تو اور کون لائے گا؟
تو پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ (خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں کہ عجیب ایمان کن لوگوں کا ہے؟) تب حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان عجیب ان لوگوں کا ہے جو تمہارے بعد آئیں گے، نہ پیغمبر اُن کے سامنے ہوں گے، نہ معجزات اُن کے مشاہدے میں آئیں گے، اور اُوپر سے شکو ک وشبہات ڈالنے والے ہزاروں ہوں گے، مگر پھر بھی وہ ایمان لائیں گے، اور اس پر جمیں گے، تو اُن کا ایمان عجیب ہوگا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز موانع کی کثرت اور رکاوٹوں کے ہجوم میں حاصل کی جاتی ہے تو وہی زیادہ عجیب ہوتی ہے، ورنہ اگر کسی چیز کے اسباب اور مؤیدات بہ کثرت ہوں، رکاوٹ کوئی نہ ہو، تو اُس کاحاصل کرلیا جانا زیادہ عجیب نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ ملائکہ اگر عبادت میں مصروف ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے، کیوں کہ تجلیاتِ الٰہیہ تو ہمہ وقت سامنے ہیں اور رکاوٹیں بالکل نہیں۔ نہ ان کے پیچھے کھانے پینے کا جھگڑا، نہ بیوی بچوں کا جھگڑا، نہ بیوی بچوں کا دھندا، نہ شہوت و غضب کا قصہ۔ تو عبادت اُن کے حق میں اَمرِ طبعی ہے اور طبیعت کے تقاضوں کو پورا کرلینا کوئی حیرت ناک بات نہیں۔ بلکہ اس سے رک جانا حیرت ناک اور عجیب ہے۔ پس جیسے انسان کے حق میں کھانا پینا، سونا جاگنا عجیب نہیں۔ کیوں کہ طبیعت کا تقاضا ہے۔ ایسے ہی عبادت کرنا فرشتوں کے حق میں طبعی بات ہے جس کو بجا لانا عجیب نہیں۔ عبادت اگر عجیب ہے تو انسان کے حق میں ہے، کیوں کہ وہ اپنی ساری نفسانی خواہشات اور طبعی تقاضوں کو پامال کرکے اور بہ الفاظِ دیگر اپنے نفس کو قتل کرکے رکوع وسجود میں لگتا ہے۔
انسان کی عبادت فرشتوں کی عبادت سے افضل ہے: انسان کا ایک سجدہ فرشتوں کی ہزاروں برس کی عبادت سے زیادہ عجیب بلکہ افضل ہے۔ کیوں کہ وہ نفس ۔ُکشی پر مبنی ہے، نہ کہ نفس کے تقاضوں پر۔ وہ صبح کے وقت گرم لحاف میں سے اُٹھ کر اور خواہشاتِ نفس کے خلاف