ہم راہ آئے اور روٹیوں کے ارد گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ایک آگے بڑھا اور اُس نے روٹیوں کو سونگھا، پھر دوسرا آگے بڑھا اور اس نے ایک روٹی توڑی اور اس کے ٹکڑوں کو سونگھا اور روٹیاں چھوڑ کر سب بھاگ گئے۔
اب ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ سمجھ گئے ہیں اور ہماری ساری تدبیر ناکام ہوگئی، مگر تھوڑی ہی دیر میں تقریباً ساٹھ ستر بندروں کا ایک قافلہ آیا اور اُن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک ٹہنی تھی جن میں ہرے ہرے پتے تھے، اُنھوں نے آکر پہلے روٹیوں کو توڑا، اُن کے ٹکڑے کیے، گویا پوری جماعت میں یہ اصول پیشِ نظر تھا کہ
نیم نانے گر خورد مردِ خدا
بدل درویشان کند نیمے دگر
بندر بانٹ تو مشہور ہے۔ آخر کار انھوں نے وہ ٹکڑے باہم بانٹ لیے اور ہر ایک نے ایک ایک ٹکڑا کھا کر اُوپر سے وہ پتے چبالیے جو ہر ایک اپنی ٹہنی ساتھ لایا تھا۔ اور دندناتے ہوئے چلے گئے اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ اپنا آٹا بھی گیا۔ کپڑا تو پہلے ہی
جاچکا تھا۔ اور اُوپر سے وقت بھی ضائع ہوا۔ اندازہ یہ ہوا کہ یہ پتے جو وہ ساتھ لائے تھے زہر کا تریاق تھے، جو ان بندروں کو معلوم تھا۔ اب بھی اگر آپ یہ دعویٰ کریں کہ طبیب صرف ہم ہی ہیں جو جڑی بوٹیوں کی خاصیتیں جانتے ہیں تو یہ دعویٰ غلط ہوگا، کیوں کہ یہ بندر بھی دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم بھی طبیب ہیں جو زہر خوردہ کا علاج کرسکتے ہیں اور جب یہ واضح ہوگیا کہ جانوروں میں بھی اَ۔ّطبا اور معالج موجود ہیں اور وہ بھی حسبِ ضرورت دوا استعمال کرکے دُکھ درد کا دفعیہ کرسکتے ہیں، بلکہ پیش بندی کرکے بیماری کو پہلے ہی سے روک دیتے ہیں، تو فنِ طب میں ان کا دخل معلوم ہوا۔ پھر آپ کو خواہ مخواہ ہی دعویٰ ہے کہ صرف ہم ہی اَ۔ّطبا ہیں اور فنِ طب کی وجہ سے جانوروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ آپ اور بندر نفسِ فن میں برابر ہوگئے۔ گو کچھ خصوصیات کا فرق ہی سہی۔
فنِ سیاست بھی حیوانات میں پایا جاتا ہے: پھر اگر آپ یہ کہیں کہ طب نہ سہی فنِ سیاست سہی۔ ہم سیاست جانتے ہیں اور اپنی ملت کا نظم کرسکتے ہیں اور سیاسی نظام قائم کرکے قوم کی منظم خدمت کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہم اس بارے میں جانوروں پر فضیلت رکھتے ہیں، تو