سے کہیں زیادی نیچا اور کم رتبہ ہوگیا کہ جانور طبعِ حیوانی کو استعمال کرتے ہوئے عقل کو اس کا غلام تو نہیں بناتے۔ اب خواہ ان میں عقل بالکل نہ ہو یا ہو تو نہ ہونے کے برابر ہو۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح رہے گی کہ انھوں نے طبیعت جیسی جاہل اور بے شعور حاکم کو اس کی جاہلانہ کارروائیوں کو عقل پر حاکم اور غالب نہیں بنایا۔ اور یہ انسان طبعی حرکات کرتا ہے اور عقل سے اُنھیں مز ۔ّین بناکر ان حیوانی حرکات کو انسانی بلکہ ۔َملکی حرکات ثابت کرنا چاہتا ہے تو جانور سے زیادہ احمق ثابت ہو ا۔
نیز یہ نکتہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ طبعی تقاضوں کو پورا کرلینا کوئی کمال کی بات نہیں، بلکہ طبعی تقاضوں کے خلاف کرنا کمال ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں بہت بڑا آدمی ہوں، کیوں کہ میں کھانا کھایا کرتا ہوں۔ تو لوگ کہیں گے کہ احمق! یہ کون سے کمال کی بات ہے۔ جانور بھی کھانا کھاتے ہیں، یہ تو طبعی تقاضا ہے۔ اس میں نہ محنت ہے نہ مشقت اور نہ ہی اس سے انسان کی کوئی جو اں مردی اور جفاکشی ظاہر ہوتی ہے، ورنہ سارے جانور بھی ۔ُفضلا اور باکمال ہوں گے۔ یا اگر کوئی کہے گا کہ میں بڑا فاضل آدمی ہوں، کیوں کہ میں رات کو پڑ کر سوتا ہوں، تو بھی کہا جائے گا کہ یہ تو ایک غیر اختیاری اور طبعی فعل ہے ،جانور بھی کرلیتے ہیں۔ تو اس میں کمال کی بات کیا ہوئی؟
طبعی تقاضوں کی مخالفت کمال ہے: کمال نام ہے خلافِ طبع کرنے کا کہ اس میں انسان کی محنت، جفا کشی اور تحمل و صبر کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو سنا جائے کہ وہ مہینوں کھانا نہیں کھاتا۔ تو لوگ اُسے باکمال سمجھ کر اس کے پیچھے ہولیتے ہیں کہ واقع میں خلافِ طبع پر قابو پالینا کمال ہے، نہ کہ طبع کا غلام بن کر طبعی تقاضوں کو پورا کرلینا کمال ہے۔ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔
حجۃ الاسلام سیّدنا الامام حضرت نانوتوی ؒ کا بصیرت افروز واقعہ:حضرت مولانا قاسم صاحب نانو توی ؒ بانیٔ دار العلوم
دیوبند جن کا علم و فضل اور کمالِ ظاہری و باطنی معروف ہے، اُن کا زمانہ اور پنڈت دیانند سرسوتی کا زمانہ ایک ہے۔ پنڈت دیانند ہندوؤں