محیر۔ّ العقول مادّی ایجادات انتہا کو پہنچ رہی ہیں جو عقلِ نفس کے کمال کی دلیل ہے اور ایک سے ایک حیرت ناک علمی و روحانی اجتہادات انتہا کو پہنچے جو فقۂ نفس کے کمال کی دلیل ہے۔ غرض تعقل اور تفقّہ یا عقلِ نفسانی اور فقۂ روحانی دونوں حدِ۔ّ کمال کو پہنچ گئے، کیوں کہ علمِ جامع دنیا کے سامنے آگیا، اس لیے خلافتِ ظاہری اور اسمی بھی مکمل ہوگئی اور خلافتِ حقیقی اور معنوی بھی تکمیل کو پہنچ گئی، لیکن صورت بلاحقیقت ناپائیدار اور بے معنی ہے اس لیے مادّی خلافت بغیر روحانی خلافت کے بے معنی، اورجسم بلا روح کے مانند ہے جس کے لیے نہ بقا ہے نہ پائیداری۔ اس لیے اصل خلافت وہی علمی خلافت کہی جائے گی جس سے انسان کا کامل امتیاز ساری کائنات پر نمایاں ہوگا۔ تاہم یہ دونوں خلافتیں انسان ہی کو دی گئیں۔ نہ ملائکہ کو ملیں، نہ جنا۔ّت
وحیوانات کو۔ کیوں کہ علم کا یہ مقام اور کسی کو نہیں ملا۔
ہاں! یہ علم انسان ہی میں کیوں ترقی کرسکتا تھا اور کیوں وہ بہائم یا جنا۔ّت یا ملائکہ میں ترقی پذیر نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ بھی دونوں قسم کی خلافتوں کے مستحق ہوجاتے۔ سو اس کی بنا یہ ہے کہ علم کی ترقی ہو یا صنعت و عمل کی۔ بغیر تصادم اور ٹکراؤ کے نہیں ہوتی۔ بلکہ ترقی نام ہی ٹکراؤ اور تصادم کا ہے۔ اس کے بغیر علم اور قدرت کے مخفی راز آشکارا نہیں ہوسکتے۔
مادّی ترقی کی اصل حقیقت تصادم و ٹکراؤ کا نتیجہ ہے: کیوں کہ یہ ایک فطری اصول ہے کہ خالی مادّہ میں ترقی نہیں ہوتی جب تک کہ اُسے اُس کے مخالف سے ترکیب دے کر ٹکرایا نہ جائے۔
مثلاً: محض آگ میں کوئی ترقی نہیں ہے۔ جس طرح ہزاروں سال پہلے وہ جلتی اور بھڑکتی تھی، اُسی انداز پر آج بھی جلتی اور بھڑکتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ہزار دس ہزار برس کے بعد اس کی لپٹ اور رنگ نے ترقی کرکے کوئی نئی صورت یا جد۔ّت پیدا کرلی ہو۔ اس کے کسی انداز میں نہ اضافہ ہے نہ ترقی۔ اسی طرح محض پانی میں کوئی ترقی نہیں۔ سمندر کئی ہزار سال پہلے جس طرح ٹھاٹھیں مار کر اُچھل کود کرتا تھا، اُسی طرح آج بھی کررہا ہے۔ نہ اس کے تموّج نے کوئی جد۔ّت پیدا کی نہ مد۔ّ وجزر نے، وہی تموّج آج بھی ہے جو دس ہزار سال پہلے تھا۔ نیز سمندر بھی وہیں کا