ہیں اور اپنے اپنے رنگ کے ماہر ہیں۔ اس لیے انجینئری کے بارے میں آپ کو دعوائے فضیلت کا کوئی حق نہیں۔
اسی طرح مثلاً علمِ طب ایک تجرباتی علم ہے۔ یہ علم جس طرح انسان کو حاصل ہے اسی طرح حیوانوں میں بھی یہ علم اپنی اپنی بساط کی قدر پاتا جاتا ہے۔ آپ یہ دعویٰ کریں کہ صرف ہم طبیب ہیں اور ہمیں ہی اس علم کا شرف حاصل ہے۔ لہٰذا ہم ہی اس فن کی رُو سے اشرف المخلوقات ہیں، غلط ہے۔ جانور بھی دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمیں ہی علمِ طب میں مہارت ہے۔ فرق اگر ہوگا تو صرف یہ کہ آپ پر زیادہ بیماریاں آتی ہیں تو آپ دواؤں کی زیادہ اقسام جانتے اور استعمال کرسکتے ہیں، جانورں کو بیماریاں کم لاحق ہوتی ہیں اس لیے وہ دوائیں بھی کم جانتے ہیں، لیکن اس کمی بیشی کے فرق سے علمِ طب صرف آپ کی خصوصیت قرار نہیں پاسکتا۔
ایک چشم دید مثال: تقسیم سے قبل مجھے ایک ہندو ریاست اندر گڑھ میں بارہاجانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میرے بعض اعزّہ اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ اس ریاست میں بندروں کے مارنے کی ممانعت تھی۔ اس لیے بندروں کی تعداد ہزاروں کی حد۔ّ تک تھی۔ بندر کی جبلت میں شرارت اور چالاکی بلکہ ایذا رسانی داخل ہے، اس لیے وہ کافی نقصان کرتے تھے۔ کبھی برتن اُٹھاکر بھاگ جاتے، کبھی کپڑا اُٹھا لے جاتے۔
اس لیے ایک بار ہم نے سوچا کہ کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔ اس لیے ہم نے ایک روپیہ کا سنکھیا خریدا اور اُسے آٹے میں ملایا اور روٹیاں پکوا کر چھت پر پھیلا دیں تاکہ وہ کھائیں اور مرتے جائیں۔ اس لیے ہم روٹیاں چھت پر ڈال کر خود ایک گوشے میں بیٹھ کر منتظر رہے کہ اب بندر آکر ان روٹیوں کو کھائیں گے اور مریں گے۔ کچھ بندر آئے مگر ان روٹیوں سے دور کھڑے ہوکر دیکھنے لگے کہ یہ کیا نیا حادثہ پیش آیا کہ روٹیاں بکھری ہوئی پڑی ہیں۔ یقینا اس میں کچھ بات ہے، ورنہ روٹیاں یوں نہیں بکھیری جاسکتیں۔ اس لیے روٹی کو غور سے دیکھا، پھر سونگھا۔ بالآخر انھوں نے روٹی کو ہاتھ نہیں لگایا اور چلے گئے۔ ہم سمجھے کہ تدبیر فیل ہوگئی، لیکن بندروں کا یہ چالاک قافلہ جاکر پھر اپنے ساتھ اور بندروں کو لایا اور چودہ پندرہ موٹے موٹے بندر ان کے