آج بھی کرتے ہیں۔ نہ بیل سے گھاس کھانے کا اور نہ نر و مادہ کے ملنے کا کوئی جدید طریقہ نکلا۔ نہ فرشتوں کی نیکی کرنے کا کوئی نیا راستہ نکلا۔ نہ شیاطین کے مکر و فریب میں کوئی جد۔ّت پیدا ہوئی۔ بلکہ ہزاروں سال پہلے ان انواع کے جو طبعی افعال تھے وہی کے وہی آج بھی ہیں۔ ان میں کوئی ترقی نہیں۔ کیوں کہ یہ سب نوعیں اپنے اندر ایک ہی ایک مادّہ رکھتی ہیں اور ان کے اندرون میں تصادم کی کوئی صورت نہیں، جو ترقی کی بنیاد تھی۔
انسان میں ملکیت، بہیمیت، شیطنت، تینوں ہیں: بخلاف انسان کے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ ساری قوّتیں جمع فرمادیں۔ اس میں ۔َملکیت بھی ہے، بہیمیت بھی ہے اور شیطنت بھی ہے۔ تو لازمی تھا کہ یہ متضاد قوّتیں باہم ٹکرائیں اور اس ٹکرائو سے نئے نئے افعال کا ظہور ہو جو صرف ایک قوّت سے نہیں ہوسکتا تھا۔ مثلاً: بہیمیت کا کھانا پینا اور نسل بڑھانا تھا، لیکن جب اس کے ساتھ ۔َملکیت ٹکرا جاتی ہے تو تیسری قوّت پیدا ہوجاتی ہے، جس کو عفت اور پاک دامنی کہا جاتا ہے اور اس سے جائز و ناجائز کی سینکڑوں صورتیں پیدا ہوتی ہیں کہ فلاں کھانا جائز ہے اور فلاں حرام۔ فلاں نسل ۔ُکشی حلال اور فلاں حرام۔ فلاں چیز پینی جائز اور فلاں ناجائز۔ غرض تد۔ّین کے ہزاروں گوشے عفت و پاک دامنی کی بہ دولت کھلتے ہیں۔ جس سے دین و دیانت ترقی کرتے ہیں، اور عفت درحقیقت بہیمیت اور ۔َملکیت کے ٹکرائو کا نتیجہ ہے، جیسے آگ اور پانی کے ٹکرائو کا نتیجہ بھاپ تھا۔ جس سے تمد۔ّن ترقی کرتا تھا۔ اسی طرح شیطنت کا کام دھوکا، فریب اور دغابازی ہے۔ اس کے ساتھ اگر ۔َملکیت کی عقل لڑا دو تو تدبیر و تد۔ّبر پیدا ہوگا۔ جس سے مکر و فریب کے بجائے عقل خیز تدابیر کا ظہور ہوگا اور حملہ آوری اور بچائو کے نئے نئے نظریات سامنے آئیں گے۔
درندوں میں قوّتِ غضبیہ ہے جس کا ثمرہ تخریب اور چیر پھاڑ ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ ملائکہ کی متانت و ۔ُبردباری کو ٹکرادیا جائے تو اس سے شجاعت پیدا ہوا ہوتی ہے۔ جس میں عقل و ہوش کے ساتھ جوش دکھایا جاتا ہے اور بہادری کے ساتھ دانائی کا استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال شہوت، غضب اور مکر و فریب کے ساتھ اگر قوّتِ عقلیہ کو لڑایا جائے تو اس سے پاکیزہ