اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور علمی، اخلاقی اور دینی ترقیات کے دروازے کھل جاتے ہیں جو صرف انسان ہی سے ممکن ہیں۔ جن و ۔َملک اور حیوان سے ممکن نہیں۔ کیوں کہ متضاد قوّتوں کا مجموعہ انسان ہی ہے۔ اس لیے ترقی کی راہیں بھی انسان ہی پر کھل سکتی ہیں، نہ کہ ان تین مخلوقات پر۔ اس لیے اگر ایجادات سے دنیا کو سجایا تو انسان نے سجایا۔ ریل، تار، فون، بجلی، اسٹیم، جہاز، کشتی سواری، مکان، ظروف، تجارت، حرفت، حکومت، انسان کے سوا کسی نے کرکے نہیں دکھلائی اور ادھر اجتہادات اور نقل و روایت کا میدان یعنی دین، شریعت، طریقت، مشروب، ذوقِ وجدان، تجربہ، علم، معرفت، قرب، طاعت، بصیرت بھی انسان کے سوا کوئی حتیٰ کہ پاک باز فرشتے بھی میسر نہ کرسکے۔ یعنی انسان اس ترقی اور ان متضاد مادّوں کے ٹکرائو سے پیدا شدہ ارتقا کی بہ دولت فرشتوں سے کہیں زیادہ اونچا پہنچا اور جبرائیل ؑ کی رسائی سے بھی آگے تک اس کی رسائی ہوئی۔ جہاں ملائکہ ۔َپر بھی نہیں مار سکتے۔ یہ اس کے قوّتِ عقلیہ کے قوّتِ شہوانیہ، قوّتِ غضبیہ، قوّت حیوانیہ سے ٹکرائو اور عقل کے غلبے کا نتیجہ ہے۔
ہاں! اگر اس ٹکرائو میں عقل مغلوب ہوجائے اور یہ قوّتیں بہ مقابلہ عقل کے غالب آجائیں یعنی عقل ان مادّوں کی خادم بن جائے اور ان کے تقاضوں کو اپنی تدبیر سے پورا کرنے والی نوکر بن جائے تو پھر یہ بہائم سے چار ہاتھ آگے کا بہیمہ اور شیاطین سے درجوں اُوپر کا شیطان بن جاتا ہے۔ جس سے بہائم اور شیاطین بھی پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ اگر اس کی عقل بہیمیت کا آلۂ کار بن جائے تو بہائم کو وہ عیاشی اور بدکاری نہیں سوجھ سکتی جو اسے ۔ُسوجھے گی۔ یہ زنا اور سیاہ کاری کی ایسی نئی نئی شکلیں بھی اختیار کرے گا جو بہائم کو ہرگز نہیں ۔ُسوجھ سکتیں۔ اس کے یہاں عیاشی کے اڈّے بن جائیں گے، زنا کے چکلے تیار ہوجائیں گے۔ فحاشی ایک فن اور ایک ہنر بن جائے گی اور حیوانات کے خواب میں بھی وہ حیوانیتیں نہ آئیں گی جو اس کا فحاش دماغ اور عیاش دل اختراع کرے گا۔ اور اگر اپنی عقل کو مکر و فریب کی قوّتوں کا غلام بنادیا تو پھر اُسے وہ حیلے اور جعل سازیاں ۔ُسوجھیں گی کہ شیطان کو صدیوں غور کرکے بھی نصیب نہ ہوگی۔ غرض ان ۔ِخلقی قوّتوں کے ٹکرائو میں اگر عقل غالب رہی تو یہ اپنی برتری کا ثبوت پیش کرے گا۔ اور اگر عقل پر شہوت و غضب اور درندگی غالب آگئی تو یہی انسان انتہائی پستیوں میں گرا ہوا نظر