بنیں۔ ورنہ ہر قوم ماء راکد (ٹھہرے ہوئے پانی) کی طرح سڑ کر اپنے جوہروں کو نہ کھو دے۔ اور اقوام میں اس بے فکری سے سستی، کاہلی اور تن آسانی پیدا ہوجائے اور عالم میں فساد نمایاں ہوجائے۔
اس لیے اقوام کو ٹکرا کر ایک دوسرے کے لیے تازیانۂ عبرت بنادیا جاتا ہے، تاکہ بے فکری سے اپنی خلقی جوہروں کو ضائع نہ کرنے پائیں۔ اس لیے قرآنِ حکیم نے اقوام کے تصادم کو خدا کے فضل و کرم سے تعبیر کیا ہے کہ اس کے بغیر نہ کائنات کے سربستہ راز ہی واشگاف ہوسکتے ہیں، نہ اقوام میں بیداری اور مستعدی ہی پیدا ہوسکتی ہے جو قدرت نے اس میں ودیعت فرما رکھی تھی۔ فرمایا:
{وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍلا لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰـکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَO}1
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بعضے آدمیوں کو بعضوں کے ذریعے سے دفع کرتے رہا کرتے ہیں، تو سرزمین (تمام تر) فساد سے ۔ُپر ہوجاتی، لیکن اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں جہان والوں پر۔
ٹھیک اس طرح سمجھو کہ انسان کے سوا کائنات کی تین باشعور کائنات ایک ایک جوہر کی حامل ہیں۔ حیوانات میں صرف بہیمیت ہے۔ جنا۔ّت میں صرف شیطنت ہے اور ملائکہ میں صرف ربا۔ّنیت ہے۔ اسی لیے ان میں سے کسی میں بھی ترقی نہیں۔ کوئی محض آگ کی مانند ہے، جیسے: جنا۔ّت۔ کوئی محض ہوا کی مانند ہے، جیسے: ملائکہ۔ کوئی محض پانی یا مٹی کے مانند ہے، جیسے: بہائم۔
سو نہ جنا۔ّت میں کوئی ارتقائی شان ہے۔ کسی جن نے نہ آج تک کوئی ایجاد کی جس سے دنیا میں سجاوٹ پیدا ہوجاتی، نہ کسی فرشتہ نے آج تک کوئی اجتہاد کیا کہ نیا طریقہ اور نئی شریعت پیدا ہوجاتی، نہ کسی جانور نے آج تک کوئی نیا راستہ نکالا جس سے دنیا کو کوئی راہ نمائی ملتی۔ جنا۔ّت و شیاطین جس طرح ہزاروں برس پہلے حیلہ و فریب اور فساد انگیزی کرتے تھے، اُسی نو۔ّعیت کا آج بھی کرتے ہیں۔ بہائم کھانا پینا، چرنا اور نسل بڑھانا جیسے پہلے کرتے تھے، وہی