خادم سے پوچھا بھی کہ اس کھانے میں کیا اور کوئی بھی پنڈت جی کا شریک تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں، صرف پنڈت جی ہی نے کھانا کھایا ہے۔ منشی صاحب حیران رہ گئے کہ یا اللہ! ایک آدمی اور اتنا کھانا؟ بہرحال پنڈت جی سے مباحثہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور منشی صاحب نے واپس آکر حضرت نانوتوی سے ساری گفتگو نقل کردی۔
اس سلسلے میں سنانا یہ ہے کہ منشی جی حضرت کے پاس الگ ہو کر جب اپنے ہم جولیوں میں بیٹھے تو منشی صاحب نے کہا کہ بھائی! مجھے ایک بات کی بڑی فکر ہوگئی۔ وہ یہ کہ اگر مسائل میں پنڈت جی سے مناظرہ ہوا تو یقین ہے کہ ہمارے حضرت جیت جائیں گے، کیوں کہ بحمدا للہ حق پر ہیں، لیکن فکر یہ ہے کہ اگر کھانے میں مناظرہ ہوا تو کیا ہوگا؟ کیوں کہ پنڈت جی تو پندرہ سیر کھا کے بھی ڈکار نہیں لیں گے اور ہمارے حضرت آدھی چپاتی ہی کھا کر بیٹھ رہیں گے۔ تو بات کیوں کر بنے گی؟ بات ہنسی کی تھی تمام احباب سن کر ہنس پڑے اور بات ختم ہوگئی، لیکن شدہ شدہ یہ بات حضرت تک پہنچ گئی۔ تو منشی جی کو بلایا اور کہا کہ آپ سے کیا کہا تھا؟ منشی جی گھبرائے، فرمایا کہ بات میں سن چکا ہوں، مگر پھر بھی تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں، کیوں کہ مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ منشی جی نے ڈرتے ڈرتے اپنا مقولہ دہرایا۔ فرمایا: اس کے دو جواب ہیں: اوّل الزامی جواب ہے اور وہ یہ کہ کیا ساری باتوں کے لیے مناظرے کو میں ہی رہ گیا ہوں۔ آخر تم لوگ کس لیے ساتھ آئے ہو؟ کھانے میں بحث ہوئی تو تم مناظرہ کرلینا۔ دوسرا جواب تحقیقی ہے اور وہ یہ کہ (حضرت نے ذرا چیں بہ چیں ہو کر فرمایا:) تم اتنے دن صحبت میں رہے تمہارے ذہن میں یہ سوال کیوں کر پیدا ہوا کہ اگر کھانے میں مناظرہ ہوا تو کیا ہوگا؟ مناظرہ علم میں ہوتا ہے یا جہالت میں؟ کھا نا بہیمیت کی علامت ہے اور بہیمیت جہالت کا شعبہ ہے۔ تو کیا تم مجھے جہالت اور بہیمیت میں مناظرہ کرانے کے لیے یہاں لائے ہو؟ اگر اس بہیمیت میں مناظرہ ہوا تو ہم بہائم کو مقابلے کے لیے پیش کریں گے۔ ہم پنڈت جی کے مقابلے میں بھینسے کو پیش کریں گے، اونٹ کو پیش کریں گے اور بات بڑھی تو ہا تھی کو پیش کردیں گے کہ کھاؤ کتنا کھاتے ہو۔
پھر فرمایا کہ علم کا شعبہ ہے نہ کھانا، تو تمہارے ذہن میں کیوں یہ سوال نہ پیدا ہوا کہ نہ