ہے۔ انسان وہ ہے جس سے علم و حکمت کا چشمہ پھوٹے یا اس چشمہ سے سیراب ہو یا اس کا حامی ہو۔ اس لیے حدیثِ نبوی میں ارشاد فرمایا کہ
اَلدُّنْیَا مَلُعُوْنَۃٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِیْھَا إِلَّا عَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ أَوْ مَا وَالَاہُ۔
دنیا بھی ملعون جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون، سوائے عالم کے یا متعلّم کے یا ان کے حامی اور دل دادہ کے۔
اور وہ علم جو عالم یا متعلّم سیکھتا سکھاتا ہو کتاب و سنت کا علم ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
إِنَّمَا الْعِلْمُ آیَۃٌ مُحْکَمَۃٌ، أَوْ سُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ، أَوْ فَرِیْضَۃٌ عَادِلَۃٌ۔
بلاشبہ علم یا محکم آیت (قرآن) ہے یا سنتِ قائمہ ہے یا فریضۂ عادلہ ( جو کتاب وسنت کے مشابہ ہو، یعنی قیاس مجتہد)۔
اور یہ علم صرف انبیا سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ عقل و طبع یا وہم و خیال سے یہ علم آتا ہے۔
علمِ نبوّت کے لیے ضرورتِ جد وجہد: محنت اور خلافِ طبع مجاہدہ اور ریاضت کرنے سے کیوں کہ یہ علم علومِ طبیعیہ
وعقلیہ کی طرح طبعی نہیں ہے، اس لیے سب علوم سے افضل ہے، کیوں کہ اُمورِ طبیعیہ کا انسان سے سر زد ہونا عجیب نہیں۔ عجیب یہ ہے کہ اس میں ایک چیز نہ ہو اور وہ آجائے۔ چناں چہ حدیث میں ہے کہ آں حضرتﷺ نے صحابہؓ سے سوال فرمایا: أَیُّھُمْ أَعْجَبُ إِیْمَانًا؟ (بتاؤ کہ ایمان عجیب کن لوگوں کا ہے؟) صحابہؓ نے جواب دیا کہ ملائکہ کا ایمان۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ملائکہ کو کیا ہوا جو وہ ایمان نہ لائیں۔ ہر وقت تو وہ تجلیاتِ ر۔ّبانی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جنت دوزخ اُن کے سامنے ہے۔ وہ بھی ایمان نہ لائیں گے تو اور کون لائے گا؟ پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ انبیا کا ایمان زیادہ عجیب ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ انبیا ؑ ایمان نہ لائیں گے تو کیا کریں گے؟رات دن تو ان پر ملائکہ اُترتے ہیں۔ اللہ کی وحی اُن پر آتی ہے۔ جلال و جمالِ خدا وندی اُن کی آنکھوں کے سامنے ہوتاہے۔ معجزات اُن کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بھی ایمان نہ لائیں گے تو کیا کریں گے؟
تو پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پھر سب سے زیادہ عجیب ایمان ہمارا