وہ علومِ شرعیہ کے ذریعے کرسکتا ہے، نہ کہ علومِ طبیعیہ وعقلیہ ووہمیہ کے ذریعے کہ یہ علوم انسان کے سوا اوروں کو بھی میسر ہیں۔
دوسرے لفظوں میں نہ صرف یہی کہ اس علم سے انسان کی برتری اور فضیلت ہی ثابت ہوتی ہے، بلکہ اس کی انسانیت کا مدار بھی اس علم پر ہے۔ کیوں کہ جب یہ علم ہی انسان کی خصوصیت ٹھہرا کہ یہ علم نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں، تو اس کاحاصل یہ نکلا کہ انسان اس وقت تک انسان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس علم سے بہر ہ ورنہ ہو۔ کیوں کہ جس چیز کی خصوصیت ختم ہوجائے جس سے وہ چیز، وہ چیز تھی، تو پھر وہ شئے، وہ شئے ہی نہیں رہتی۔ اگر آپ میں یہ خصوصیت باقی نہ رہے تو آپ آپ نہیں رہے۔ اگر خصوصیتِ انسان انسان میں ہو تو انسان انسان کہلائے گا۔ ورنہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ مکان بنانے، کھانے پینے، علاج معالجہ کرنے میں انسان کے برابر ہیں۔
پس جب انسان کی خصوصیت یہ علمِ الٰہی ہے جس سے وہ مرضیاتِ الٰہی سمجھ لیتا ہے، تو یہ علمِ الٰہی جب انسان میں ہوگا تو اس کا نام انسان ہوگا ورنہ ایک کھاتا پیتا حیوان رہ جائے گا۔ کیوں کہ کھانے پینے پہننے کو کتنا ہی خوش نما بنائے اور علمی رنگ میں نمایاں کرے، تب بھی رہے گا جانور ہی۔ کیوں کہ جانور بھی یہ علوم اپنے اندر رکھتے ہیں، جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے۔
بہرحال یہ بات صاف ہوگئی کہ نہ کھانا انسانیت ہے، نہ پینا، نہ مکان بنانا انسانیت ہے، نہ سیاست و تنظیم۔ اگر کوئی ماہرِ فن پچاس منزل کی بلڈنگ بھی بنائے تب بھی وہ اس کی وجہ سے حیوانیت سے نہیں نکل سکتا کہ یہ کام یعنی مکان سازی اس کی خصوصیت نہیں۔ حیوانیت کی خصوصیت ہے اور اگر مکان سازی، پارچہ بافی، نظم کاری میں عقل کو بھی لگادیا جس سے یہ اشیا مز ۔ّین ہوگئیں، تو گو بہ ظاہر تو وہ جانوروں سے ممتاز اور افضل ہوگیا، مگر حقیقت میں اُن سے اور زیادہ گھٹ گیا۔ کیوں کہ عقل جیسے پاک جوہر کو اُس نے اپنی طبیعت کا خادم اور غلام بنادیا۔ اور سب جانتے ہیں کہ طبیعت بے شعور ہوتی ہے اور عقل سرچشمۂ شعور ہے۔ تو ایک بے شعور کو باشعور کا حاکم بنا کر گویا جاہل کو بادشاہ اور عالم کو غلام کردیا۔ یہ کہاں کی عقل ہے؟ بلکہ بد عقلی ہے۔ جانور اس بے ہودگی سے ۔َبری ہے۔ اس لیے ایسا کرکے انسان اونچا تو کیا ہوتا جانوروں