کے فرقہ آریہ سماج کے بانی ہیں۔ انھوں نے قصبہ رڑکی میں اسلام پر اعتراضات کیے، ۔ُعلما نے دندان شکن جوابات دیئے اور کہا کہ اگر جرأت ہے تو میدان میں آکر بحث کرو۔ اُس نے کہا کہ تم لوگ میرے مقابلے کے نہیں، میں تو صرف ’’مو لبی کاسم‘‘ (مولوی قاسم) سے بحث کروں گا۔ چناں چہ رڑکی کے ۔ُعلما نے حضرت کو خط لکھا کہ ایسا واقعہ درپیش ہے آپ تشریف لائیں۔ باوجودے کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ؒ بیمار تھے مگر مذہبِ اسلام کی حفاظت و اشاعت کی خاطر اپنے چند شاگردوں کے ساتھ رڑکی تشریف لے گئے جن میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب محد۔ّث دار العلوم دیوبند، مولانا احمد حسن صاحب محد۔ّث امروہی، مولانا حکیم رحیم اللہ صاحب بجنوری ؒ اور دیوبند کے مشہور ادیب منشی نہال احمد وغیرہ حضرت کے ۔ُخد۔ّامِ خاص شریکِ سفر تھے۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ دیوبند میں ۔ُکل ڈیڑھ ذہین ہے: پورے ذہین حکیم مشتاق احمد صاحب اور آدھے ذہین منشی نہال احمد ہیں، ان میں سے جب کوئی میرے وعظ میں سامنے بیٹھ جاتا ہے تو مضامین کی آمد شروع ہوجاتی ہے کہ سمجھنے والے موجود ہیں۔
حضرت نا نوتوی ؒ رڑکی پہنچے تو انھوں نے منشی نہال احمد کو پنڈت دیانند کے پاس بھیجا تاکہ وہ پنڈت جی سے مباحثہ کی شرائط طے کریں۔ جب منشی صاحب پنڈت جی کی قیام گاہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ پنڈت جی کھانے کی میز پر بیٹھ چکے ہیں، کھانے سے فارغ ہو کر بات چیت کریں گے۔ اتنے میں پنڈت جی کے لیے ایک بڑی لمبی چوڑی پرات (پیتل کی سینی) میں کھانا آیا، جس میں غیر معمولی مقدار میں پوریاں، حلوا اور اسی مقدار میں ترکاری وغیرہ تھی۔ گویا آٹھ دس آدمیوں کی شکم سیری کے بقدر کھانا سینی میں دیکھا گیا جو پنڈت جی کے لیے لایا گیا تھا۔ کچھ منٹ بعد وہ پرات صاف ہو کر باہر آئی جس میں ایک ۔ّحبہ بھی باقی نہ تھا۔ منشی صاحب سمجھے کہ پنڈت جی کے ساتھ کھانے میں اور لوگ بھی شریک ہوں گے، کیوں کہ ایک آدمی بھلا اتنا کہاں سے کھا سکتا ہے۔ منشی صاحب کمرے میں اندر گئے تو انھوں نے دیکھا کہ اکیلے پنڈت جی بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے خیال کیا کہ شاید وہ لوگ دوسرے دروازے سے نکل گئے ہوں گے، مگر دیکھا کہ اس کمرے میں کوئی اور دروازہ ہی نہیں۔ پھر انھوں نے