ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
بکری سب کے لیے کافی ہے لہٰذا یہ معنی و مفہوم مذکورہ بالا دلیل کی وجہ سے غلط ہے اور اَحناف کا بیان کردہ مفہوم و معنی صحیح ہے یعنی حدیث میں اَفراد خانہ کی قربانی میں شرکت مراد نہیں بلکہ قربانی کے ثواب میں شرکت مراد ہے۔ دلیل نمبر ٨ : غیر مقلدین حدیث کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے بکری کی قربانی میں اپنے سب گھر والوں کو شریک کیا اور اپنی طرف سے اور سب گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کی اِس لیے غیر مقلدین کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ گھر کے اَفراد سو سے زیادہ ہوں تو بھی ایک بکری اُن سب کے لیے کافی ہے اور اَحناف کہتے ہیں کہ نبی پاک ۖ نے بکری کی قربانی تو صرف اپنی طرف سے کی تھی دیگر اَفراد خانہ کو بکری کی قربانی میں شریک نہیں کیا بلکہ اُن کو قربانی کے ثواب میں شریک کیا اور یہ جائز ہے کہ ایک آدمی بکری کی قربانی تنہا کرے لیکن دُوسروں کے لیے اِس قربانی کے ثواب کا ہدیہ کر کے اُن کو قربانی کے ثواب میں شریک کر لے جیسا کہ اَولاد اور شاگردوں کے نیک اَعمال کے اَجرو ثواب میں ماں باپ اور اَساتذہ بھی شریک ہوتے ہیں۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ دُوسرے متفق علیہ اور اِجماعی مسائلِ شرعیہ جن میں بکری کے ذبح کرنے کا حکم ہے اُن میں متعدد آدمی ایک بکری میں شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟ ہم نے اِن مسائل میںدیکھا کہ ایک بکری میں دو آدمی بھی شریک نہیں ہوسکتے مثلاً (١) دمِ اِحصار یعنی ایک آدمی نے حج یا عمرہ کا اِحرام باندھا لیکن راستے میں دُشمن یا بیماری رُکاوٹ بن گئی اور وہ سفر جاری نہیں رکھ سکتا تو وہ ایک بکری حرم میں بھیج دے جب وہ بکری حرم میں ذبح ہوجائے تو یہ اِحرام کھول دے (سورہ بقرہ آیت ١٩٦ ) یہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوسکتی ہے اِس میں دو آدمی شریک نہیں ہو سکتے ۔