ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
کا ہوتا ہے، یہی حال بہت سے نادار لوگوں کا ہے جو قرض اُدھار کرکے کسی طرح حج کو جاتے ہیں اور پھر وہاں خود سراپا سوال بن جاتے ہیں، اگرچہ حکومت کی طرف سے اِس پر کافی روک ٹوک ہے لیکن پھر بھی عورتوں اور مردوں کی ایک بڑی تعداد حرمین شریفین میں اور اِن کے اِرد گرد سوال کرتی ہوئی نظر آتی ہے، نیز ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اگرچہ دینی خدمات اور علم دین سے وابستگی رکھتے ہیں لیکن سفر حج سے اُن کا مقصد صرف اپنی شہرت ہوتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ فلاں نے اِتنے حج کیے اور فلاں نے اِتنی بار زیارت کی، وغیرہ۔ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ۔ حرمین شریفین میں تصویرکَشی کی وبا : اور مزید تکلیف کی بات یہ ہے کہ حرمین شریفین میں تصویر کشی اور فوٹو گرافی نہایت عام ہوگئی ہے، بالکل اِسی اَنداز میں عین بیت اللہ شریف کے سامنے مرد اور عورتیں تصویریں کھینچتے اور کھنچواتے ہیں جیساکہ ''تاج محل'' وغیرہ تفریحی مقامات پر فوٹو گرافی کی جاتی ہے اور جسارت کی اِنتہاء یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں روضۂ اَقدس علی صاحبہا الصلاة والسلام پر عین مواجہہ شریف کے سامنے شوقیہ فوٹو کھینچے جارہے ہیں، ایک صاحب نے یہ منظر دیکھ کر بڑے درد کے ساتھ کہا : ''اَفسوس ! جس نبی نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے اُسی کے مزارِ مقدس پر تصویریں لی جارہی ہیں۔'' ایک دن مسجد نبوی میں نماز کے بعد شیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی اِمام وخطیب مسجد نبوی نے حرمِ نبوی میں تصویر کشی کی مذمت پر تقریر کی اور اِسے گناہ قرار دیا لیکن اِس کے بعد بھی اِن مکروہ مناظر میں کوئی کمی دکھائی نہیں دی چونکہ اب کیمرے والے موبائل اور مختصر ترین ڈیجیٹل کیمرے اِس قدر عام ہوگئے ہیں کہ حکومت کے لیے ایسے آلات کے حرمین شریفین میں داخلہ پر پابندی لگانا ممکن نہیں رہا، اِس لیے یہ وباء روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اِس کی برائی کا اِحساس تک لوگوں کے دلوں سے نکلتا جارہا ہے، وجہ یہی ہے کہ سفر حج کی اَصل رُوح یعنی فنائیت اور من چاہی زندگی کے مقابلہ میں خدا چاہی زندگی گزارنے کا جذبہ ماند پڑتا جارہا ہے۔