ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
(١) حدیث کا ایک مفہوم اِختراع کیا جو بالکل غلط ہے۔ (٢) پھر اِس غلط مفہوم پر بنیاد رکھ کر ایک مسئلہ اِختراع کیا کہ ایک گھر کے بے شک سو سے زیادہ اَفراد ہوں اُن سب کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کافی ہے۔ (٣) پھر اِس غلط اِختراعی مسئلہ پر قیاس کر کے ایک اور غلط مسئلہ اِختراع کیا۔ اِس اِجمال کی تفصیل ملاحظہ کیجیے : حدیث میں رسو ل اللہ ۖ نے اپنی طرف سے اور اپنے اہلِ بیت کی طرف ایک بکری کی قربانی کی۔ غیر مقلدین نے اِس سے تمام اہلِ بیت کا ایک بکری کی قربانی میں شریک ہونا مراد لیا جو غلط ہے،بعد اَزاں اُنہوں نے اِس غلط مفہوم کی بنیاد پر یہ مسئلہ اِختراع کیا کہ ایک گھر کے سو یا سو سے بھی زیادہ اَفراد ایک بکری میں شریک ہوسکتے ہیں پھر اِس پر اُونٹ اور گائے کے حصے کا قیاس کیا کہ چونکہ اُونٹ، گائے کا ایک حصہ ایک بکری کے برابر ہے اور بکری کی قربانی کی طرح اُونٹ، گائے کا ایک حصہ بھی قربانی ہے لہٰذا بکری کی طرح اُونٹ گائے کے ایک حصہ میں بھی گھر کے سب کے سب اَفراد شریک ہوسکتے ہیں اور بکری کی طرح وہ ایک حصہ سب گھر والوں کے لیے کافی ہے، اِس ایک حصہ سے سب گھر والوں کی قربانی اَدا ہوجائے گی۔ اگر فقہاء کے شرعی قیاسات اِبلیسی قیاس ہیں تو غیر مقلدین کا یہ قیاس جس کی بنیاد اِتنی اَغلاط پر ہے یہ تو کئی گناہ زیادہ اِبلیسی قیاس ہونا چاہیے۔ غیر مقلدین کا قیاس ملاحظہ کیجیے ! حافظ عبد القادر روپڑی فرماتے ہیں ایک بکری ایک گھر کی طرف سے کافی ہے اور ایک حصہ بھی ایک بکری کے قائم مقام ہے پس وہ بھی ایک گھر کی طرف سے کافی ہوگا نیز فرماتے ہیں : اور یہ بات ظاہر ہے کہ اُونٹ گائے کا ایک حصہ قربانی ہے پس وہ بھی ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگا۔ (فتاوی علمائے حدیث ج ١٣ ص ١٠٥)