ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
کا خیال رکھتا ہے اور کار وبار کے وقت اُس کا دھیان خدا کی طرف لگا رہتا ہے وہ حضور اَکرم ۖ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح زندگی گزارتا ہے وہ ناجائز کاموں سے صرف اِس لیے کنارہ کش ہے تاکہ اُس سے اُس کا خدا ناراض نہ ہو تو گویا اُسے ہروقت خدا کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے ایسا آدمی یقینا خدا کی عبادت کے لیے خالی ہو گیا۔ عیسائیوں کا فرسودہ طریقہ : اِسلام نے'' خلوت دَر اَنجمن'' تعلیم فرمائی ہے یعنی سب میں رہ کر سب کاموں میں لگ کر بھی ایسا رہے جیسے تنہائی میں رہتا ہو۔ ''دست بکار و دِل بیار'' ١ والا معاملہ ہو۔ وہ طریقہ جو عیسائیوں نے اِیجادکر لیا ہے کہ گوشہ نشین ہو کر عبادت کی جائے، اِسلام نے اُس سے روک دیا۔ اِنسان کے مزاج پر اِس کا اَثر : آگے اِرشاد ہے کہ جو عبادتِ خدا وندی کے لیے خالی ہو گیا اُس میں ایک قسم کی بے نیازی آجائے گی یعنی اُس کی نظر لوگوں سے ہٹی رہے گی، جو صرف خدا پر بھروسہ رکھے گا خدا اُس کو کسی کا محتاج نہیں رکھے گا اَمْلَاْ صَدْرَکَ غِنًی یعنی میں تیرے سینے کو غنا سے بھردُوں گا ۔ اللہ سے بے توجہی کا نقصان : وَاِنْ لَّا تَفْعَلْ ہاں اگرتو عبادت کے لیے خالی نہیں ہوگا ہر وقت دُنیا کے کاموں میں لگا رہے گا تو مَلَاتُ یَدَکَ شُغْلًا وَلَمْ اَسُدَّ فَقْرَکَ میں تیرے ہاتھوں کو کاموں سے بھر دُوں گا توہمیشہ محتاج رہے گا بظاہر کتنا بھی بڑا اَمیر کیوں نہ نظر آئے در حقیقت ہمیشہ محتاج ہوگا، تیرے اُوپر پریشانی اور حاجت مندی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہے گا اور تو کبھی مطمئن نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بے نیازی سے نوازے،آمین ۔اِختتامی دُعا..................... ١ ہاتھ کاموں میں، دھیان اللہ کی طرف