ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
قربانی کا گوشت : بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ فقیروں کو خیرات کر دیا جائے باقی خود کھا ئیں اور دوست اَحباب اور رشتہ داروں کو پیش کریں، اگر خیرات کا حصہ تہائی سے کم ہو گیا تب بھی کوئی کراہت یا گناہ نہیں ہے۔ قربانی کی کھال : (١) قربانی کی کھال آپ اپنے کام میں لاسکتے ہیں مثلاً مشک یا ڈول بنوا لیں یا جائے نماز تیار کرلیں۔ (٢) یہ بھی جائز ہے کہ کسی کو خدا واسطے دے دیں۔ (٣) یہ بھی جائز ہے کہ آپ فروخت کردیں مگر جو قیمت ہے آپ وہی کی وہی ایسے ضرورت مندوں کو دے دیں جن کو زکوة دی جا سکتی ہو، جن کو زکوة دینی جائز نہیں اُن کو یہ قیمت کے دام بھی دینے درست نہیں۔ (٤) اگر کھال کی قیمت کے دام آپ نے کسی اور کام میں خرچ کردیے پھر اُتنے ہی دام اپنے پاس سے آپ نے خیرات کردیے تو بے شک اَدائیگی ہوگئی مگر بے ضابطہ اور غلط بات ہوئی۔ (٥) کھال کی قیمت مسجد یا کسی ایسے کارِ خیر میں خرچ نہیں کر سکتے جن میں کسی کو معین طور پر مالک نہ بنایا جا سکتا ہو مثلاً کسی مردہ کے کفن دفن میں خرچ نہیں کر سکتے ، ہاں اِس کے کسی ضرورت مند وارِث کو دے سکتے ہیں کہ وہ اگر چاہے تو اِس مردہ کے کسی کام میں اپنی طرف سے لگادے۔ متفرق مسائل : (١) قربانی کی رسی، جھول وغیرہ سب خیرات کردے۔ (٢) گوشت بنانے والے (قصائی) کی مزدوری اپنے پاس سے دے قربانی کا گوشت یا چربی یا چھیچھڑے وغیرہ یا قربانی کی کھال مزدوری میں دینی جائز نہیں ہے۔ (٣) کسی پر قربانی واجب نہیں تھی لیکن اُس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اَب اُس جانور کی قربانی واجب ہوگئی۔