ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
سب کے سب اِس حکمِ شرعی سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں تو اِس صورت میں حضرت علی کی حدیث کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ حضرت علی نے جو رسول اللہ ۖ کی طرف سے قربانی کی اِس سے رسول اللہ ۖ کے ذمہ جو قربانی تھی وہ قربانی والا حکم پورا ہو گیا اور آپ کی طرف سے قربانی اَدا ہوگئی حالانکہ موت کے بعد آدمی کسی عمل کا مکلف ہی نہیں رہتا۔ اِس لیے ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کی طرف سے قربانی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کر کے اُس قربانی کا ثواب رسول اللہ ۖ کے لیے ہدیہ کر کے آپ کی طرف ثواب پہنچایا اور ثواب پہنچا کر قربانی کے ثواب میں شریک کیا، پس اِسی طرح آپ ۖ کے اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ قربانی کے ثواب کا اپنے گھر والوں کے لیے ہدیہ کر کے اُن کو ثواب میں شریک کیا اور اِس طرح ثواب کا ہدیہ جیسے فوت شدگان کے لیے ہو سکتا ہے زندوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ دلیل نمبر ٦ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ۖ کے پاس ایک آدمی آیا اُس نے کہا میرے ذمہ ایک بڑا جانور ہے (اُونٹ ،گائے) اور میں صاحب ِمال ہوں لیکن بڑا جانور مجھے مِل نہیں رہا جس کو میں خریدوں فَاَمَرَہُ النَّبِیُّ ۖ اَنْ یَّبْتَاعَ سَبْعَ شَیَاہٍ فَیُذْبَحْنَ۔ (سُنن ابن ماجہ باب کم یجزی من الغنم عن البدنہ ص ٢٢٦) نبی کریم ۖ نے اُس کو حکم دیا کہ وہ بڑے جانور کے بدلے سات بکریاں خرید کر کے اُن کو ذبح کرے۔ اِس حدیث سے ایک تو یہ بات معلوم ہوگئی کہ اُونٹ اور گائے میں سات حصے ہوتے ہیں، دُوسری یہ بات معلوم ہوگئی کہ سات بکریاں اُونٹ گائے کے ساتھ حصوں کے برابر ہیں اور ایک بکری اُونٹ گائے کے ایک حصہ کے برابر ہے۔