ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
(٢) جو آدمی حج ِ تمتع یا حج قران کرے وہ بطورِ شکرانہ ایک بکری ذبح کرے جس کو دمِ تمتع ودمِ قران کہا جاتا ہے اِس میں دو حاجی شریک نہیں ہوسکتے ہر حاجی اَلگ بکری ذبح کرے گا۔ (٣) ایک بکری ایک ہی بچی کے عقیقہ میں ذبح ہوسکتی ہے ایک سے زیادہ بچیوں کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح نہیں ہوسکتی۔ (٤) گھر کے تین اَفراد میں سے ہر ایک نے نذر مانی کہ وہ بطور ِصدقہ بکری ذبح کرے گا تو ہر ایک پر بوجہ نذر ایک بکری ذبح کرنا واجب ہے لہٰذا یہ تین بکریاں ذبح کریں گے تینوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا درست نہ ہوگا ،ایسے ہی اگر ایک گھر کے تین آدمی مُحصَر ہوگئے یا تین آدمیوں نے حج ِ تمتع یا حج ِقران کیا یا ایک گھر کے تین آدمیوں نے اپنی اپنی بچی کا عقیقہ کیا تو اِن سب صو رتوں میں گھر کے تین اَفراد کی طرف سے ایک بکری کافی نہ ہوگی اور تینوں آدمی ایک ایک بکری میں شریک نہ ہوسکیں گے بلکہ ہر آدمی اَلگ اَلگ بکری ذبح کرے گا۔ پس زیرِ بحث مسئلہ میں جو اَحناف کا موقف ہے کہ ایک بکری کی قربانی ایک ہی آدمی کی طرف سے ہوسکتی ہے اُس میں دو آدمی بھی شریک نہیں ہوسکتے نہ وہ آدمی دُوسرے لوگوں کو شریک کر سکتا ہے اَحکامِ شرع میں اِس کے نظائر اور اِس کی مثالیں موجود ہیں جبکہ غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ایک بکری میں گھر کے سو اَفراد سے زیادہ بھی شریک ہو سکتے ہیں،اِس کی اَحکامِ شرع میں کوئی نظیر اور کوئی مثال موجود نہیں ہے اَلبتہ اِس کے بر عکس مثالیں موجود ہیں یعنی ایک آدمی کی طرف سے متعدد بکریاں ہوں جیسے ایک لڑکے کے عقیقے میں دو بکریاں ذبح کرنا یا جس محرم پر اُونٹ یاگائے کا دم واجب ہوجائے وہ اُونٹ اور گائے نہ ملنے کی صورت میں سات بکریاں ذبح کرے گا۔ لہٰذا ترجیح اُس موقف کو ہوگی شریعت میں جس کے نظائر موجود ہیں اور جس موقف کی نظیر موجود نہیں وہ مرجوح ہوگا۔ اِسی طرح حدیث کا یہ مفہوم کہ نبی پاک ۖ نے اپنے اَفراد خانہ کو بکری کی