ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
وَالزَّعِیْمُ غَارِم۔(مُسند اَحمد ٥/٢٦٧، ترمذی شریف ١/٢٣٩، ابوداود ٢/٥٠٢، حیاة الصحابہ ٣/٤٠٥) ''اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اُس کا حق دے دیا ہے لہٰذا وارث کے حق میں وصیت کا اِعتبا رنہیں ہے اور بچہ کا نسب شوہر ہی سے ثابت ہوگا اور زناکار کو محض ڈلا ملے گا (یعنی شوہر والی عورت اگر زنا کی مرتکب ہو تو اِس عمل سے پیدا ہونے والا بچہ زانی کی طرف منسوب نہ ہوگا بلکہ جائز شوہر کی طرف منسوب ہوگا) اور اُن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے (یعنی برے عمل کی سزا کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے) اور جو شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کا مدعی ہو یا کوئی غلام اپنے مولیٰ کے علاوہ دُوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے تو اُس پر تاقیامت اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ اور کوئی عورت اپنے شوہر کی (صراحةً یا دلالةً) اِجازت کے بغیر گھر کا کوئی سامان خرچ نہ کرے، عرض کیا گیا کہ عورت کسی کو کھانا بھی نہ دے ؟ تو آپ ۖ نے فرمایا کہ کھانا ہمارے قیمتی مالوں میںسے ہے، پھر آپ ۖنے اِرشاد فرمایا عاریت کا سامان مالک کو لوٹایا جائے گا، اور دُودھ والا جانور (جو کسی شخص کو دُودھ پینے کے لیے عاریةً دیا گیا ہو) اُسے مالک کو واپس کرنا پڑے گا اور قرض مالک کو اَدا کیاجائے گا اور کفالت لینے والا ضامن ہے۔'' (١١) تبلیغ دین کی تلقین : حجة الوداع کے موقع پر آپ نے جو خطبات اِرشاد فرمائے اُن میں آخر میں اِس بات کی اہتمام کے ساتھ تلقین کی کہ جنہوں نے دین کی باتیں سنی ہیں وہ غائب حضرات کو پہنچادیں چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ ۖ نے مسجد خیف میں خطبہ دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا : نَضَّرَ اللّٰہُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَعَمِدَ بِہَا یُحَدِّثُ بِہَا اَخَاہُ۔ (کنزالعمال ، حیاة الصحابہ ٣/٤٠٣)