ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
حج کا سفر ایک تربیتی سفر ہے : حالانکہ اگر غور کیا جائے تو سفر حج کی حیثیت ایک تربیت اور ٹریننگ کورس کی ہے، ہر حاجی گویاکہ شریعت کی طرف سے قائم ہونے والے ایک تربیتی کیمپ میں حصہ لیتا ہے، اِس کیمپ میں ہر شخص کو اپنی اَنانیت ختم کرنے اور زندگی کے ہر گوشہ میں خدائی حکم نافذ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے چنانچہ اِحرام شروع ہوتے ہی بہت سی حلال چیزیں بحکم خداوندی ممنوع ہوجاتی ہیں اور تلبیہ کی گردان کرکے محرم یہ اِعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ سے غیر اللہ کی حاکمیت کے فاسد خیال کو نکال چکا ہے پھر بیت اللہ شریف کا طواف، صفا مروہ کے درمیان سعی، منیٰ کی وادی میں حاضری، دیوانہ وار عرفہ کی طرف کوچ، عرفہ میں اِمام کے ساتھ عصر کی نماز ظہر کے وقت میں اَدائیگی، پھر بارگاہِ رب العزت میں اِلحاح وزاری کے ساتھ فریاد، اِس کے بعد مزدلفہ میں جاکر مغرب کی نماز کی عشاء کے وقت میں اَدائیگی، اور دسویں تاریخ کو رمی جمار کرتے وقت اللہ کی بڑائی کے ساتھ شیطان لعین سے بیزاری کا اِظہار، پھر اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی اور طوافِ زیارت، اِن سب اَعمال ومناسک کا ایک ایک جزو یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں آزاد نہیں ہیں بلکہ احکم الحاکمین کے اَحکامات کے پابند ہیں، اِسی وجہ سے قرآنِ کریم میں جہاں حج کے مناسک کا ذکر ہے اُس میں تقویٰ اور پرہیز گاری پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ (سورةالبقرہ : ١٩٧) خطباتِ حجة الوداع : اِسی لیے ہمارے آقا ومولیٰ فخر عالم حضرت محمد مصطفی ۖ نے حجة الوداع کے موقع پر متعدد خطبات اِرشاد فرمائے جن میں اُمت کو اَحکامِ شریعت کی پاسداری کرنے کی تلقین فرمائی، آپ کے یہ خطبات اِنسانیت کے لیے اَمن کے منشور کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ کے نام لیواؤں کے لیے تاکیدی وصیت کے درجہ میں ہیں جن کے مضامین کو ہر وقت یاد رکھنے اور اُن کا مذاکرہ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں اِن ہی خطبات کے کچھ منتخب حصے پیش کیے جاتے ہیں :