ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
دلیل نمبر ٣ : حضرت اَبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : مَنْ وَّجَدَ سَعَةً لِاَنْ یُّضَحِّیَ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَحْضُرَنَّ مُصَلَّانَا۔ ١ کہ جو آدمی قربانی کرنے کی اِستطاعت رکھتا ہے پھربھی وہ قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں حاضر نہ ہو۔ غیر مقلدین کے بیان کردہ مفہوم ِ حدیث کے مطابق ایک گھر کے سو بلکہ اِس سے بھی زیادہ آدمی شریک ہو سکتے ہیں تو اِس طرح ہر آدمی بڑی آسانی سے قربانی کر سکتا ہے تو حدیث ِ پاک میں اِستطاعت کی شرط لگانے کی کیا ضرورت ہے ؟ پس اِس لیے زیرِ بحث حدیث کا مطلب وہ نہیں لیا جائے گا جو غیرمقلدین نے اپنی رائے سے سمجھا ہے یعنی گائے کی قربانی میں شرکت کی طرح بکری کی قربانی میں شریک ہونا اور ایک بکری کی قربانی سے سب کی قربانی کا اَدا ہوجانا بلکہ اِس سے قربانی کے ثواب میں شریک کرنا مراد ہے۔ دلیل نمبر ٤ : حضرت عائشہ اور حضرت اَبو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کا قربانی کرنے کا اِرادہ ہوتا تو آپ ۖ موٹے تازے اور سینگوں اور سیاہ سفید رنگ والے بڑی جسامت کے دو خصی مینڈھے خریدتے ۔ فَذَبَحَ اَحَدَھُمَا عَنْ اُمَّةٍ لِّمَنْ شَھِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ وَشَھِدَ لَہ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْاٰخَرَ عَنْ مُّحَمَّدٍ وَّعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ ۖ (سُنن ابن ماجہ ص ٢٢٦) اور اُن میں سے ایک کو اپنی اُمت کے اُن لوگوں کی طرف سے ذبح کیا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی پاک ۖ کے اَحکامِ شرع پہنچانے پر گوا ہی دی ہے اور دُوسرے کو محمد اور آلِ محمد کی طرف سے ذبح کیا۔ ١ سنن بیہقی ج٩ ص ٢٦٠