ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
حرفِ آغاز نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ ! چند ماہ سے قومی زبان'' اُردو'' کو سر کاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ آئین کی رُو سے ہر حکومت اور اِدارہ پابند ہے کہ ١٤ اگست ١٩٨٨ء سے دفتروں، عدالتوں، سفارتخانوں اور تعلیم گاہوں میں ہر قسم کی تحریر اور تقریراُردو میں اَنجام دیں۔ مگر اِس سب کچھ کے باوجود گزشتہ اَٹھائیس برس سے ہر حکومت اِس آئینی فیصلہ کو پامال کیے ہوئے ہے آئین ِ پاکستان سے بے مروتی برتنے میں پاکستان کی اَفسر شاہی سب سے زیادہ پیش پیش رہی ہے اِن کی خواہش ہے کہ پاکستان کا ایک بہت بڑا پڑھا لکھا طبقہ عملی اِعتبار سے جاہل سمجھا جائے، لاکھوں کروڑوں باصلاحیت اَفراد کی توانائیوں سے ملک محروم رہے اور صرف بیوکریٹس کے چند خاندان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہیں اِس مفاد پرست اور خود غرض طبقہ کے ہاتھوں ملک و قوم کی بربادی کسی بھی ذی شعور سے چھپی ہوئی نہیں ہے پاکستان کے اِستحکام اور خوشحالی کی راہ میں حائل یہ اَنگریز نواز طبقہ نہ کبھی پہلے ملک وقوم کا وفادار رہا ہے اور نہ آئندہ اِن سے ایسی کوئی توقع وابستہ کی جاسکتی ہے پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ نے ''اُردو'' کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کر نے کی جو عدالتی کار روائی شروع کی ہے یہ ملک و قوم کے لیے اُن کا نہایت مستحسن اِقدام ہے اِس کام کی تکمیل اگر اِن کے ہاتھوں اَنجام پاجاتی ہے تو بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی