ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
اَلاَ وَاِنِّیْ فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ وَاُکَاثِرُ بِکُمُ الْأُمَمَ فَلاَ تُسَوِّدُوْا وَجْہِیْ، اَلاَ وَاِنِّیْ مُسْتَنْقِذ اُنَاسًا وَمُسْتَنْقِذ مِنِّیْ اُنَاس فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ اُصَیْحَابِیْ فَیَقُوْلُ: اِنَّکَ لاَ تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ۔ (سُنن اِبن ماجہ ٢١٩ کتاب المناسک حدیث: ٣٠٥٧) ''خبردار رہو ! میں حوض ِکوثر پر تمہارا منتظر رہوںگا اور تمہارے ذریعہ سے دیگر اُمتوں پر فخر کروںگا اِس لیے تم (بدعملی کرکے) میرا چہرہ سیاہ مت کرنا (یعنی مجھے رُسوا مت کرنا) کان کھول کر سن لو ! کہ حوضِ کوثر پر میں کچھ لوگوں کو چھاٹوںگا اور کچھ لوگ مجھ سے الگ کیے جائیںگے تو میں کہوں گا کہ اے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آپ کو نہیں معلوم کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئے کام کیے ہیں (یعنی بدعات اور بدعملی میں مبتلا رہے اِس لیے یہ جامِ کوثر پینے کے لائق نہیں)۔'' درج بالا کلمات اِس قدر پُراَثر ہیں کہ اِن کو پڑھ لینے کے بعد کوئی بھی صاحب اِیمان اور محب ِرسول ایسا کام کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا جس سے آخرت میں نبی اکرم ۖ کے سامنے شرمسار ہونا پڑے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام کا یہ اِرشاد کہ فَلاَ تُسَوِّدُوْا وَجْہِیْ (کہ قیامت میںمجھے رُسوا مت کرنا) ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کیونکہ اگر ایک طرف آپ اپنی اُمت کے نیک لوگوں کے ذریعہ دُوسری اُمتوں پر فخر فرمائیںگے تو اگر اُمت میں ایسے بدعمل اَفراد زیادہ پائے جائیں جو فخر کے قابل نہ ہوں تویقینا پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو سخت تکلیف ہوگی۔ (مستفاد: حاشیہ سندھی علی سنن اِبن ماجہ طبع بیروت ٧٠٤) ہمارا فرض : خلاصہ یہ کہ آنحضرت ۖ کے درج بالا گراں قدر اِرشادات پوری اُمت کی دینی ودُنیوی فلاح کی ضمانت ہیں جن کا ہر لفظ ہر مسلمان کو یاد رکھنا چاہیے لیکن جو حضرات سفر حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اُنہیں خصوصیت کے ساتھ قدم قدم پر یہ اِرشادات پیش نظر رکھنے چاہئیں بلکہ اُنہیں