ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
کا قطرہ زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک درجہ پا لیتا ہے، پس پوری خوش دلی سے اِس فرض کواَنجام دو۔( اِبن ماجہ ، حاکم وغیرہ۔ ترغیب و ترہیب ص ١٨٩ ) قربانی کس پر واجب ہے ؟ (١) جس پر صدقہ ٔفطر واجب ہوتا ہے، بقر عید کے دنوں میں اُسی پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ (٢) اگر ١٢ ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسافر وطن لوٹ آیا یا کہیں پندرہ روز قیام کا اِرادہ کر لیا یا غریب آدمی صاحب ِ نصاب بن گیا تو اُس پر قربانی واجب ہوگئی۔ اگر ذبح کرنے کا وقت نہ مل سکے تو اَگلے روز اُس کی قیمت صدقہ کرے۔ (٣) اگر اِتنی حیثیت نہ ہو کہ صدقہ ٔ فطر اُس پر واجب ہوتو قربانی اُس پر واجب نہیں ہے، ہاں اگر قربانی کردے گا تو بہت بڑے ثواب کا مستحق ہوگا۔ (٤) قربانی صرف اپنی طرف سے واجب ہوتی ہے اَولاد کی طرف سے قربانی واجب نہیں ہوتی، اگر بیوی صاحب ِنصاب ہے تواُس پر قربانی واجب ہے، یہ قربانی اپنے پاس سے کرے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی ہے تو اپنے ماں باپ یاسرورِ کائنات رسول اللہ ۖ صحابۂ کرام، اہلِ بیت یا اپنے پیر یا اُستادوں کی رُوح کو ثواب پہنچانے کے لیے بھی قربانی کر سکتے ہیں۔ قربانی کا وقت : (١) ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی بقر عید کے دِن سے لے کر ١٢ ذی الحجہ کی شام تک قربانی کا وقت ہے، آپ جس دِن چاہیں قربانی کردیں مگربہتر یہ ہے کہ بقر عید کے دِن قربانی کریں۔ (٢) اِن دنوں میں رات کو بھی قربانی کی جا سکتی ہے مگر بہتر یہی ہے کہ دِن کے وقت قربانی کی جائے (٣) ١٢ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب کے وقت قربانی کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ (٤) قربانی کرنے والا جب تک نماز ِعید سے فارغ نہ ہوجائے قربانی کرنا درست نہیں ہے، اَلبتہ اگر آپ دیہات میں رہتے ہیں جہاں عید کی نماز واجب نہیں ہوتی یا آپ دیہات پہنچ گئے ہیں یا آپ نے قربانی کا جانور دیہات میں بھیج دیا ہے تو دیہات میں نمازِ عید سے پہلے قربانی کی جا سکتی ہے۔