ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
قربانی کے ثواب کا ہدیہ کرنا مراد ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی پاک ۖ نے اپنی اُمت کی طرف سے ایک مینڈھے کی قربانی کی ،علامہ کاسانی اِس کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں : اِنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ اِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ لِاَجْلِ الثَّوَابِ وَھُوَ اَنَّہُ جَعَلَ ثَوَابَ تَضْحِیَتِہ بِشَاةٍ وَاحِدَةٍ لِاُمَّتِہ لَا لِلْاِجْزَائِ وَسُقُوْطِ التَّعَبُّدِ عَنْھُمْ ۔ ١ نبی پاک ۖ نے ایسا محض ثواب کی خاطر کیا ہے یعنی آپ ۖ نے اپنے ایک مینڈھے کی قربانی کا ثواب اپنی اُمت کے لیے ہدیہ کر کے اُس کو ثواب میں شریک کیا ہے ۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ پوری اُمت کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کافی ہے اور وہ اِس ایک بکری کی وجہ سے قربانی کے حکم سے بری الذمہ ہوگئے۔ مفہومِ حدیث کے متعلق دونوں آراء کا تجزیہ : زیرِ بحث حدیث کے مفہوم کے متعلق ایک رائے غیر مقلدین کی ہے دُوسری طرف اَحناف کی، ہر ایک کی رائے پر مبنی دونوں مفہوم آپ حضرات ملاحظہ کر چکے ،ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ غیر مقلدین کا بیان کردہ مفہوم غلط اور اَحناف کا بیان کردہ مفہوم صحیح ہے ،اِس دعوی پر ذیل میں دلائل ملاحظہ کیجیے : دلیل نمبر ١ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی ٹانگیں اور پہلو سیاہ تھے، آنکھوں کے اِرد گرد بھی سیاہ حلقے تھے چنانچہ وہ قربانی کے لیے لایا گیا ،آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا چھری پتھر پر تیز کر کے لے آؤ پھر آپ نے چھری پکڑی اور مینڈھے کو لٹا کر قربانی کے لیے اُس کو ذبح کیا اور یہ دُعا فرمائی : ١ بدائع الصنائع ج٤ ص ٢٠٦