ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
ثابت نہیں ہوتی تو اِس سے ثابت ہوا کہ ایک بکری کی قربانی میں متعدد لوگوں کی شرکت روا نہیں ورنہ اِس تعدد کی بھی عددی تحدید و تعیین کی جاتی ۔ لہٰذا ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے ہوسکتی ہے اِس میں متعدد آدمیوں کی شرکت اور ایک بکری سے گھر کے سو سے زیادہ اَفراد کی قربانی کی اَدائیگی والا نظریہ صحیح نہیں ہے اور نبی پاک ۖ کی حدیث کا یہ مطلب کہ آپ نے سب اَفرادخانہ کو بکری کی قربانی میں شریک کیا یہ بھی صحیح نہیں، صحیح یہ ہے کہ آپ نے اَفراد خانہ کو قربانی کے ثواب میں شریک کیا۔ دلیل نمبر ١٠ : اَدنیٰ سے اَدنیٰ جانور جس کی قربانی جائز ہے وہ بکری ہے۔ اور اگر غیر مقلدین کے نظریہ کے مطابق ایک بکری میں گھر کے مثلاً بیس اَفراد شریک ہوںتو قربانی کی اَدنیٰ مقدار بکری کا بیسواں حصہ ہوگا اور اگر سو سے بھی زیادہ اَفراد شریک ہوں تو قربانی کی اَدنیٰ مقدار کا خود اَندازہ کر لیں لہٰذا بکری کی قربانی میں اَفراد خانہ کو شرکت والا مفہوم ِ حدیث اور بکری کی قربانی میں متعدد آدمیوں کی شرکت والا نظریہ غلط ہے۔ دلیل ١١ : مذکورہ بالا دس دلیلوں سے ثابت ہوا کہ رسو ل اللہ ۖ نے اپنی اور اہلِ بیت کی طرف سے ایک بکری کی جو قربانی کی ہے اُس سے قربانی میں شرکت والا مفہوم مراد لینا اور اُس کی بنیاد پر بکری کی قربانی میں لا تعداد آدمیوں کی شرکت والا نظریہ غلط ہے اور قربانی کے ثواب میں شرکت والا مفہوم صحیح ہے۔ غیر مقلدین کا قیاس : بڑی حیرت کی بات ہے کہ غیر مقلدین جو فقہائِ کرام کے شرعی قیاس پر یہ جملہ چسپاں کرتے ہیں اَوَّلُ مَنْ قَاسَ اِبْلِیْسُ سب سے پہلے اِبلیس نے قیاس کیا لیکن زیرِ بحث مسئلہ میں اُنہوں نے اپنی رائے سے