ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
یہاں رہ جاؤں تاکہ سکون سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں، آپ نے اُنہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور اِرشاد فرمایا کہ لوگوں سے مِل جل کر رہو اُن سے جو تکلیف تمہیں پہنچے گی اُس پر صبر کروگے تو تم کو ثواب ملے گا، روایت میں ہے کہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ۖ قَالَ اَلْمُسْلِمُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی اَذَاھُمْ اَفْضَلُ مِنَ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُھُمْ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی اَذَاھُمْ ١ مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان جولوگوں میں مل جل کر رہے اور اُن سے جو تکالیف اور اَذیتیں پہنچتی ہوں اُن پر صبر کرے اُس سے اچھا ہے جو لوگوں میں نہیں رہتا اور اُن کی اَذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگوں میں رہنے والے کو کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور پہنچتی ہے اِس لیے حضور ۖ نے فرمایا کہ تمہیں جو تکلیف پہنچے گی اُس پر صبر کر کے ثواب حاصل کرو۔ مطلب کی وضاحت : اللہ تعالیٰ کے اِس اِرشاد '' تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِیْ '' اے اِنسان ! تو میری عبادت کے لیے خالی اور فارغ ہو جا،کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اِنسان تارک الدنیا ہو کر بیٹھ جائے کیونکہ اِسلام نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ (اللہ کی عبادت کے لیے)خالی ہونے کی صورت یہ ہے کہ ہر کام میں شریعت ہی کو رہبر بنائے، اُٹھنے بیٹھنے میں، سونے جاگنے میں، خریدو فروخت میں، غرضیکہ تمام معاملات اور سب کاموں میں شریعت ہی کو مدِ نظر رکھے، ایساکرنے والے نے گویا اپنے آپ کو خدا کے لیے فارغ کر لیا۔ شریعت نے ہر کام میں رہبری کردی ہے دُنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جس کے کرنے کا طریقہ خدا تعالیٰ نے نہ بتلایا ہو یا آقائے نامدار ۖ کے معمولات میں نہ رہا ہو،تو جو اِنسان اپنی زندگی کو ایسی بنالے جیسی شریعت نے بتلائی ہے، تمام کام شریعت کے مطابق کرے تووہ ایساہے جیسے صبح سے شام تک خدا کی عبادت میں لگا رہا اگر چہ بظاہر ایسے شخص نے اپنا وقت دُنیاوی کاموں میں گزارا ہو کیونکہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کام کیے جوکام اللہ تعالیٰ کوناپسند تھے وہ چھوڑ دیے جائز کام کرتا رہا اور ناجائز کام سے کنارہ کشی اِختیار کی تو جو آدمی جائز حدود میں کار وبار کرتا ہے وہ لا محالہ خدا کی حد بندی ١ مشکوة کتاب الاداب رقم الحدیث ٥٠٨٧