ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
اِس بات کو غیر مقلدین حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی یہی حدیث لکھ کر حافظ عبد القادر روپڑی فرماتے ہیں کہ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک گائے یا اُونٹ سات بکریوں کے قائم مقام ہے۔ (فتاوی علمائِ حدیث ج ١٣ ص ١٠٣) جب نبی کریم ۖ نے اُونٹ گائے کو سات بکریوں کے برابر قرار دیا ہے اور اُونٹ یا گائے صرف سات آدمیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے اِس سے زیادہ کی طرف سے نہیں ہو سکتی ورنہ سات حصوں کا مقرر کرنا بے فائدہ ہوجاتا ہے تو اِس سے ثابت ہوا کہ ایک بکری ایک آدمی کی طرف سے ہی ہوسکتی ہے اُس میں دو آدمی بھی شریک نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا اِس دلیل کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ رسول اللہ ۖ نے بکری کی قربانی میں سب گھر والوں کو شریک کیا یہ تشریح غلط ہے اور اِس غلط تشریح کی بنیاد پر یہ مسئلہ بتانا کہ بکری میں گھر کے سو سے زیادہ اَفراد شریک ہوسکتے ہیں یہ بھی غلط ہے اور جو حنفیہ نے معنی کیا ہے نبی کریم ۖ نے اپنے گھر کے لوگوں کو قربانی کے ثواب میں شریک کیا ،صحیح ہے۔ دلیل نمبر ٧ : مِخْنَف بن سُلَیم سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے عرفات میں فرمایا یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَھْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَةً ١ اے لوگو ! ایک گھر کے اَفرا دخانہ میں سے ہر ایک پر قربانی لازم ہے یعنی گھر کے صاحب اِستطاعت لوگوں میں سے ہر ایک پر قربانی لازم ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گھر کے فقراء اور بچوں پر بھی قربانی لازم ہے، جب ایک گھر کے ہر صاحب ِ وسعت پر قربانی لازم ہے تو ظاہر ہے کہ ہر ایک پر جدا قربانی کرنا بھی لازم ہے ،ایک بکری سب کے لیے کافی نہ ہوگی۔ اِس دلیل کے پیش ِ نظر حنفیہ کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ایک گھر کے ہر صاحب اِستطاعت پر اَلگ قربانی کرنا لازم ہے اور غیر مقلدین کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ایک ١ سُنن ابن ماجہ ص ٢٢٦